مسلمان تو کتابوں بھی اکٹھے نہیں ہو رہے، عملی زندگی میں تو بہت دور کی بات ہے۔ یہی تو المیہ ہے۔ باقی جو آپ نے تدابیر بیان کی ہیں اس کے لیے تو چیلوں کی ضرورت ہی نہیں ہے بلکہ خود مسلمان ہی کافی ہیں ایک دوسرے کی گردن کاٹنے کے لیے!
انماالاعمال بالنیات۔ جو لوگ دین کا علم اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ بعد میں کوئی مسجد سنبھال سکیں یا بطور پیشہ استعمال کر سکیں ان کو بھی رب دیکھ رہا ہے اور جو لوگ اپنی اور معاشرتی اصلاح کے لیے ایسا کرتے ہیں ان کو بھی رب دیکھ رہا ہے۔