گرچہ عدو سے پتھر کھائے سرکارِ دو عالم نے
ہاتھ دعا کو پھر بھی اٹھائے سرکارِ دو عالم نے
چرواہے سردار بنائے سرکارِ دو عالم نے
کچھ ایسے اسلوب سکھائے سرکارِ دو عالم نے
دل سے خار نکالے سارے،نفرت اور عداوت کے
الفت کے پھر پھول کھلائے سرکارِ دو عالم نے
شاہ تھے گرچہ شاہوں کے،پر عمر گزاری غربت میں
کپڑوں...