شرط۔
یہ کیا کہا کہ تُجھے جان سے بھی پیارا ھُوں
امیرِ شہر کی بیٹی! میں غم کا مارا ھُوں
یہ آج کس نے تُجھے میری سمت اُکسایا
کفیل بچوں کا، بِیوی کے سر کا ھُوں سایہ
اگر میں چاہُوں بھی تو تُجھ کو پا نہیں سکتا
بڑھی جو بات تو میں تاب لا نہیں سکتا
تُوجانتی ھے کہ روٹی کو ھم ترستے ہیں
بڑی غریب سی...