نتائج تلاش

  1. رشید حسرت

    یہ میری شعلہ بیانی۔

    یہ میری شُعلہ بیانی۔ یہ میری شُعلہ بیانی، یہ تیرا رنگِ جفا ھزار درد کے پیکر ہیں مُجھ کو تیری عطا کسی کے قلب کی دھڑکن کو رنگ دے لینا مُجھے نہ یاد کرے ھے اِسی میں تیرا بھلا وُہ ایک وقت تھا ھم بھی وفا کے قائل تھے ھمِیں تھے درد کےماروں میں ھم ہی گھائل تھے غرض تھی یار کے کُوچے سے صُبح و شام ہمیں کہ...
  2. رشید حسرت

    کِتابِ وقت کا مُڑا ھؤا ایک ورق۔

    کِتابِ ماضی کا مُڑا ھُؤا ایک ورق۔ مِلا نہ سکوں ایک پل کےلِئے سنبھالا تھا جو "آج" "کل" کے لِئے سُناتا ھُوں میں اِک کہانی تُمہیں کہانی لگے گی پُرانی تُمہیں ذرا جُھوٹ بھی اِس میں شامِل نہیں پھپھولا ھے گویا، میرا دل نہیں کسی گاؤں میں ایک فنکار تھا وہ فنکار بھی حد کا خُوددار تھا سنبھالا تھا...
  3. رشید حسرت

    شرط۔

    شرط۔ یہ کیا کہا کہ تُجھے جان سے بھی پیارا ھُوں امیرِ شہر کی بیٹی! میں غم کا مارا ھُوں یہ آج کس نے تُجھے میری سمت اُکسایا کفیل بچوں کا، بِیوی کے سر کا ھُوں سایہ اگر میں چاہُوں بھی تو تُجھ کو پا نہیں سکتا بڑھی جو بات تو میں تاب لا نہیں سکتا تُوجانتی ھے کہ روٹی کو ھم ترستے ہیں بڑی غریب سی...
  4. رشید حسرت

    ایک چہرہ بدلنے والے کے نام۔

    ایک چہرہ بدلنے والے کے نام۔ یہ مانا کہ روشن سِتارہ تِرا اندھیروں میں جلتا ھُؤا میں دیّا تِرے چارسُو زر کی جھنکار سی مجھے نہ مُیسّر ھے دو وقت کی تِری بات کا ھر کِسی کو لِحاظ کرے کیوں نہ تُو اپنی قِسمت پہ ناز مِرا سچ بھی سُولی پہ لٹکا رہے تِرے جُھوٹ پر سب کو اثبات ھے تِرے پاس بیٹھیں خُوشامد...
  5. رشید حسرت

    یاد کے درِیچے۔

    یاد کے دریچے۔ اِدھر تیرے کُوچے سے میرا گُزر بہانے سے وہ تیرا لے جانا گھر زمانہ لڑکپن کا رنگِین تھا کہ تُو شِعر و نغمے کا شوقِین تھا بڑی دیر تک سِلسلۂِ سُخن مِری شخصیت، میرا اندازِ فن سراہا کِیا تُو جو اشعار کو تشّفی ھُوئی تیرے فنکار کو یہِیں سے جُڑا سِلسلۂِ حیات بدل سی گئی تھی مِری کائنات...
  6. رشید حسرت

    نیند وادیوں سے۔

  7. رشید حسرت

    پھر اُس کے بعد۔

  8. رشید حسرت

    دل سُلگتا ھے۔

    دل سُلگتا ھے، آنکھ جلتی ھے کیسی حسرت یہ دل میں پلتی ھے ہائے وہ چشمِ سُرمگیں توبہ روز جو راستے بدلتی ھے دل تھا مدت سے مبتلا غم میں اب تو لگتا ھے جاں نکلتی ھے روگ لگ جائے جس جوانی کو کب جوانی وہ پھر سنبھلتی ھے کر کے مجھ کو اداس اک دلہن مڑ کے تکتی ھے، رک کے چلتی ھے عکسِ جاناں دکھائی دیتا ھے...
  9. رشید حسرت

    دیکھے گا کون۔

    چشم ہی بن جائے پتھر اس قدر دیکھے گا کون دیکھ لے گا، تجھ سا لیکن ھمسفر دیکھے گا کون کیوں نہ تنہا بیٹھ کر رو لوں گھڑی دو کے لیئے اس اندھیری رات میں یہ چشمِ تر دیکھے گا کون بِک رہا ھو جب سرِ بازار لوگوں کا ضمیر ایسے لمحے وقعتِ اہلِ ہنر دیکھے گا کون آ کہ تیری زلف سے خوشبُو سمیٹوں سانس میں "اب کے...
  10. رشید حسرت

    تلاش شیشے کی۔

    تلاش شیشے کی پتھروں میں کہاں کہاں کی سمجھ میں آتی نہیں ہیں رسمیں تِرے جہاں کی شکست کھا کر بھی مسکرانا ھے میری فطرت کہ مجھ پہ سایہ فگن ھمیشہ دعائیں ماں کی نصیب اُجڑے کہ دوستوں نے اُجاڑ ڈالا ھوئی ھے آخر کو انتہا میری داستاں کی سِکھا کے ریشم سے نرم لہجے میں بات کرنا کہاں پہ وُسعت میں کھو گیا ھے...
  11. رشید حسرت

    چند ٹکّوں کے۔

    چند ٹکّوں کے سبب سر جو اکڑ جاتے ہیں ایسے سر چھوڑ کہیں دور کو دھڑ جاتے ہیں سچ کے پارس کو پرکھنے کا سلیقہ سیکھو جھوٹ پھر جھوٹ ہیں لمحات میں گھڑ جاتے ہیں دل کا یہ زخم نہ بھرنے کا سبب تو ھوگا سوزِ احساس سے ٹانکے جو اُدھڑ جاتے ہیں جنگ لڑتے ہیں جو اوروں کے مقاصد کے لیئے آخرِ کار وہ جنجال میں پڑ...
  12. رشید حسرت

    امتزاج۔

    درد اور تبسّم کا امتزاج کیا ھو گا کیا خبر کہ اپنوں کا اب مزاج کیا ھو گا ھم فقیر لوگوں کو، کس لیئے ستاتے ھو؟ پاؤں میں نہیں پاپوش، سر پہ تاج کیا ھو گا کاٹتے ھوں جو اپنے ہاتھ سے جڑیں اپنی اس زمیں پہ اے لوگو، پھر اناج کیا ھوگا اور کُچھ نہ مانگیں گے اہلِ اقتدار ھم سے بیٹیاں اُٹھا لیں گے، اور خراج...
  13. رشید حسرت

    اضطراب

    نہیں تھا میں ہی فقط، وہ بھی اضطراب میں تھا ترنگ مجھ میں تھی کچھ، کچھ نشہ شراب میں تھا یہ دل کے داغ اسی دور کی نشانی ہیں میں جن دنوں اثرِ حلقۂِ جناب میں تھا امیرِ شہر نے چہرہ بدل لیا اپنا غضب کا سانحہ تجدیدِ احتساب میں تھا یہ اور بات کہ ہر شئے سے ہاتھ کھینچ لیا کہ پھول جو بھی کِھلا صحنِ...
  14. رشید حسرت

    تعارف تعارف۔

    عرفان سعید صاحب آپ کا شکریہ۔
  15. رشید حسرت

    اضطراب

    نہیں تھا میں ہی فقط، وہ بھی اضطراب میں تھا ترنگ مجھ میں تھی کچھ، کچھ نشہ شراب میں تھا یہ دل کے داغ اسی دور کی نشانی ہیں میں جن دنوں اثرِ حلقۂِ جناب میں تھا امیرِ شہر نے چہرہ بدل لیا اپنا غضب کا سانحہ تجدیدِ احتساب میں تھا یہ اور بات کہ ہر شئے سے ہاتھ کھینچ لیا کہ پھول جو بھی کِھلا صحنِ...
  16. رشید حسرت

    ہارنے کے بعد۔

    کچھ اور بھی ھے وہ تنہا سا ہارنے کے بعد الجھ گیا تیری زلفیں سنوارنے کے بعد ابھی تو جسم کی طاقت کو پھر سمیٹنا ھے میں بے سکت ھؤا دشمن کو مارنے کے بعد کُھلا کہ وہ تو کسی اور کی امانت تھا کسی کے حسن کا صدقہ اُتارنے کے بعد تمام عمر کی پُو نجی بھی ساتھ چھوڑ گئی جہیز کے لیئے قرضہ اُتارنے کے بعد...
  17. رشید حسرت

    ہارنے کے بعد۔

    کچھ اور بھی ھے وہ تنہا سا ہارنے کے بعد الجھ گیا تیری زلفیں سنوارنے کے بعد ابھی تو جسم کی طاقت کو پھر سمیٹنا ھے میں بے سکت ھؤا دشمن کو مارنے کے بعد کُھلا کہ وہ تو کسی اور کی امانت تھا کسی کے حسن کا صدقہ اُتارنے کے بعد تمام عمر کی پُو نجی بھی ساتھ چھوڑ گئی جہیز کے لیئے قرضہ اُتارنے کے بعد...
Top