نتائج تلاش

  1. رشید حسرت

    ووٹ پِھر نہ ڈالنا۔

    ووٹ پھر نہ دینا۔ بے حیائی کی اِنتہا ہے یہ یہ حکُومت ہے یا بلا ہے یہ بُھوک سے لوگ مر رہے ہیں یہاں اور خوابوں میں مُبتلا ہے یہ بُھول ہم سے ہُوئی جو اِس کو چُنا لوگو بُھگتو جو کی خطا ہے یہ جان و عِزّت یہاں نہِیں محفُوظ امن کی کیسی فاختہ ہے یہ ہم نے دیکھا بدلتا پاکستان کیا محبّت تھی، کیا صِلہ...
  2. رشید حسرت

    رات۔

    جِسم تھا نُور اِسے ہم نے ہی پہنائی رات کھا گئی دِن کے اُجالوں کو یہاں چھائی رات شب کے دامن میں فقط خواب ہے محرُومی ہے ہم کو مفہُوم یہ سمجھانے چلی آئی رات ہم تو خُود اپنی ہتھیلی پہ جلا لائے چراغ پِھر جو اشکوں کے سِتاروں سے نہ سج پائی رات دِن ہمیں شب کے اندھیرے میں ملا، کیا کرتے دن کو...
  3. رشید حسرت

    زِیست بار جیسی تھی

    بِتا تو دی ہے مگر زِیست بار جیسی تھی تمام عُمر مِری اِنتظار جیسی تھی حیات کیا تھی، فقط اِنتشار میں گُزری گہے تھی زخم سی گاہے قرار جیسی تھی مِلا ہُؤا مِری چائے میں رات کُچھ تو تھا کہ شب گئے مِری حالت خُمار جیسی تھی تُمہاری یاد کی خُوشبُو کے دائروں میں رہا اگرچہ زرد رہی، پر بہار جیسی تھی...
  4. رشید حسرت

    سرگِرانی۔

    عوام بُھوک سے دیکھو نِڈھال ہے کہ نہِیں؟ ہر ایک چہرے سے ظاہِر ملال ہے کہ نہِیں؟ تمام چِیزوں کی قِیمت بڑھائی جاتی رہی غرِیب مارنے کی اِس میں چال ہے کہ نہِیں؟ پہُنچ سے پہلے ہی باہر تھا عیش کا ساماں فلک کے پاس ابھی آٹا، دال ہے کہ نہِیں؟ جو برق مہِنگی بتاتا بِلوں کو پھاڑتا تھا کُچھ اپنے عہد...
  5. رشید حسرت

    تسلِیم ہم شِکست کریں یا نہِیں کریں

    تسلِیم ہم شِکست کریں یا نہِیں کریں اپنی انا کو پست کریں یا نہِیں کریں اِک شب کا ہے قیام رہو تُم ہمارے ساتھ کھانے کا بند و بست کریں یا نہِیں کریں شوہر بِچارے سوچ میں ڈُوبے ہُوئے ہیں آج بِیوی کو زیرِ دست کریں یا نہِیں کریں اعصاب کی شکست کو عرصہ گُزر گیا پِھر سے عدم کو ہست کریں یا نہِیں کریں...
  6. رشید حسرت

    مہنگائی بم

    لعنت ہو حُکمرانوں کے ایسے نِظام پر افلاس مُنتظر ہے جہاں گام گام پر ہر روز قِیمتوں میں اِضافہ ہے بے پناہ جُوں تک بھی رِینگتی نہیں ابنِ غُلام پر فاقوں سے لوگ خُود کُشی آمادہ ہوگئے "مہنگائی بم" گِرا ہے نِہتّے عوام پر ہِیرا شِماؔ کو بم نے کیا تھا تبہ مگر برباد ہم ہُوئے ہیں تغیُّر کے نام پر...
  7. رشید حسرت

    لوگوں میں تھے

    ایک ہم تھے سر پِھرے جو جل بُجھے لوگوں میں تھے ورنہ جِس کو دیکھتے معیار کے لوگوں میں تھے کون ظالِم حُکمراں کی بات کا دیتا جواب لوگ جِتنے تھے وہاں سب سر کٹے لوگوں میں تھے کون سی بستی ہے یہ, ہم کِس نگر میں آ گئے؟؟ کل تلک رنگوں میں تھے ہم' پُھول سے لوگوں میں تھے دُور رہتے تھے مگر وہ پِھر بھی تھے...
  8. رشید حسرت

    اِک ادا سے آئے گا، بہلائے گا، لے جائے گا

    اِک ادا سے آئے گا، بہلائے گا، لے جائے گا پاؤں میں زنجِیر سی پہنائے گا، لے جائے گا میں نے اُس کے نام کر ڈالی متاعِ زِندگی اب یہاں سے اُٹھ کے وُہ جب جائے گا لے جائے گا کل نئی گاڑی خرِیدی ہے مِرے اِک دوست نے سب سے پہلے تو مُجھے دِکھلائے گا لے جائے گا میں بڑا مُجرم ہُوں مُجھ کو ضابطوں کا ہے...
  9. رشید حسرت

    اِس لِیے تو سب چراغوں کو بُجھا رہنے دیا

    جو ہمارے بِیچ میں تھا فاصلہ رہنے دیا اپنی کشتی کا پُرانا نا خُدا رہنے دیا لُوٹ کا تھا مال آخِر بانٹنا تو تھا ضرُور ہم نے اپنا لے لیا بخرا، تِرا رہنے دیا روشنی میں بات بربادی کی ہو سکتی نہ تھی اِس لِیئے تو سب چراغوں کو بُجھا رہنے دیا کیا شِکایت رہ گئی ہے، اب گِلہ باقی ہے کیا؟؟ سب لُٹا بیٹھے...
  10. رشید حسرت

    ایک انکشاف رہا

    تمام عُمر اُسے مُجھ سے اِختِلاف رہا رہا وہ گھر میں مِرے پر مِرے خِلاف رہا خبر نہِیں کہ تِرے من میں چل رہا یے کیا؟ تِری طرف سے مِرا دِل ہمیشہ صاف رہا بجا کہ رُتبہ کوئی عین قاف لام کا ہے بلند سب سے مگر عین شِین قاف رہا مُجھے گُماں کہ کوئی مُجھ میں نقص بھی ہو گا؟ رہا نقاب میں چہرہ، تہہِ...
  11. رشید حسرت

    زُلفِ پریشاں ایک ساتھ

    بس رہے ہیں اس نگر میں جِن و اِنساں ایک ساتھ یہ رِوایت چل پڑی ہے ظُلم و احساں ایک ساتھ اب توقع ہم سے رکھنا خیر خواہی کی عبث ہم نے سارے توڑ ڈالے عہد و پیماں ایک ساتھ چھا گئی ہے زِندگی پر اب تو فصلِ رنج و غم جھیلتے ہیں زخمِ دوراں، قیدِ زنداں ایک ساتھ بِالیقیں ہوں گے مُیسّر، تھے نصِیبوں میں اگر...
  12. رشید حسرت

    سنبھالا جائے

    اب نہِیں ہم سے کوئی درد سنبھالا جائے گِن کے لے لو جی امانت کہ یہ بالا جائے تُم کوئی حُکم کرو اور نہِیں ہو تعمِیل حُکم تو حُکم، اِشارہ بھی نہ ٹالا جائے جِس کو آدابِ محبّت کا نہِیں ہے احساس ایسے گُستاخ کو محفل سے نِکالا جائے کِتنا اچھّا ہے کِسی اور کا دُکھ اپنانا ہم سے ہی روگ محبّت کا نہ پالا...
  13. رشید حسرت

    ادا کاری کریں

    کوئی بھی سچّا نہِیں ہے، سب اداکاری کریں آؤ مِل کر دوست بچپن کے، عزا داری کریں اِن کو اپنے آپ سے بڑھ کر نہِیں کوئی عزِیز پیار جُھوٹا جو جتائیں اور مکّاری کریں بھیڑ بکری کی طرح یہ بس میں ٹھونسیں آدمی اور بولیں اور تھوڑی آپ بیداری کریں تب تو اِن کی بات پر تُم کان تک دھرتے نہ تھے اب تُمہارا...
  14. رشید حسرت

    شِکوہ لب پہ کے

    جو بڑا جِتنا ہے ڈاکُو اُس بڑے منصب پہ ہے آہ و زاری پر ہے دُنیا اور شِکوہ لب پہ ہے حُکم جاری کر دیا ہے دیس کے حاکِم نے یہ ضابطہ جو میں نے رکھا ہے وہ لازِم سب پہ ہے بُھوک سے مجبور ہو کر لوگ خُود سوزی کریں اور حاکِم ہے کہ ہر دِن نِت نئے کرتب پہ ہے تُم کو مخلُوقِ خُدا پر رحم کُچھ آتا نہِیں...
  15. رشید حسرت

    روزنِ دیوار میں

    کُچھ نہِیں پایا ہے ہم نے اِس بھرے سنسار میں پُھول سے دامن ہے خالی گر چہ ہیں گُلزار میں پِھر محبّت اِس طرح بھی اِمتحاں لیتی رہی جیب خالی لے کے پِھرتے تھے اِسے بازار میں چُرمراتے سُوکھے پتوں پر قدم رکھتے ہوئے کھو کے رہ جاتے ہیں ماضی کی حسِیں مہکار میں کیا ہی اچھّا تھا کہ ہم کرتے کِسی نُقطے...
  16. رشید حسرت

    آگاہ تو ہو

    بھیا کیا عرض کریں۔ ٹوٹی پھوٹی شاعری ہے۔ بس تھوڑی سی تُک بندی کر کے دل کا ملال کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ویسے بھی آدمی جتنی بھی محنت کرے، جتنی عرق ریزی کرے فن کی قدر دانی کہاں ہے اس مادہ پرستی کے دور میں؟
  17. رشید حسرت

    آگاہ تو ہو

    وُہ مِرا دوست مِرے حال سے آگاہ تو ہو نا سہی سچ میں مگر خواب میں ہمراہ تو ہو کُچھ اثر اُن پہ مِری آہ و فُغاں کا یارو ہو نہ ہو، پِھر بھی مِرے لب پہ کوئی آہ تو ہو کب کہا میں نے تعلُّق وہ پُرانا ہو بحال بس دِکھاوے کو فقط تُم سے کوئی راہ تو ہو جو محبّت میں وفاؤں کو تڑپتا چھوڑے پِِھر ترستا...
  18. رشید حسرت

    تحلیل ہوئی جاتی ہے

    غم کی کِس شکل میں تشکِیل ہُوئی جاتی ہے آدمیت کی بھی تذلِیل ہُوئی جاتی ہے ہر قدم زِیست چھنکتی ہے چھناکا بن کر جِس طرح کانچ میں تبدِیل ہُوئی جاتی ہے اُس کے حِصّے کی زمِینیں بھی مِرے ہاتھ رہِیں مُستقِل طور پہ تحصِیل ہُوئی جاتی ہے اب مِرا اُس سے تعلُّق بھی نہِیں ہے کوئی اور احکام کی تعمِیل...
  19. رشید حسرت

    نہیں تو

    کب ہم نے کہا تُم سے محبّت ہے، نہِیں تو دِل ہِجر سے آمادۂِ وحشت ہے، نہِیں تو باتیں تو بہُت کرتے ہیں ہم کُود اُچھل کر اِس عہد میں مزدُور کی عِزّت ہے، نہِیں تو مزدُوری بھی لاؤں تو اِسی کو ہی تھماؤں بِیوی میں بھلا لڑنے کی ہِمّت ہے، نہِیں تو دولت کے پُجاری ہیں فقط آج مسِیحا دُکھ بانٹنا ہے، یہ...
Top