پِیڑھ اُٹھی ناگہانی رات پِھر
یاد آئی اِک پُرانی رات پِھر
ریڈیو پہ "سیربیںؔ" سُنتے ہُوئے
چائے پی ہے اصفہانی رات پِھر
وہ گلی، وہ چھوٹا سا کچّا مکاں
بھر گیا آنکھوں میں پانی رات پِھر
اُس کے گہرے غم کی، اُونچے قہقہے
کر رہے تھے ترجمانی رات پِھر
بزمِ نازاں میں غرِیبی کی مُجھے
ہوگئی ہے یاد دہانی...