فلاح کے لیئے اِنساں کی کام کرتا رہا
خُلوص و مِہر کے کُلیے میں عام کرتا رہا
مِرے لِیئے تو مِرے دوست زہر اُگلتے رہے
میں کِس گُماں میں ملائم کلام کرتا رہا
وہ کِس قدر مِری فرمائشوں کے تھا تابع
اُجالے رُخ سے، جو زُلفوں سے شام کرتا رہا
مِلا جو اور کوئی اُس کی سمت دوڑ پڑا
کُھلا وہ شخص، غرض کا سلام...