بہت عمدہ نکتہ اٹھایا ظہیر بھائی آپ نے. اسی بنا پر میرا ایک عرصے سے یہی موقف ہے کہ فلانی آواز اردو میں ہے، فلانی نہیں جیسےمباحث بے سروپا ہیں.... کیونکہ اس طرح تو آخر میں شاید دس بارہ حروف ہی بچیں گے .... خود انشاء اللہ، ذکاء الرحمن وغیرہ کے املا میں ہمزہ کا سینکڑوں برس "سروائیو" کر جانا ہی اس...
جی بالکل، ان کا اخلاق ہی تھا جو لوگوں کو ان کا گرویدہ کر لیتا تھا ۔۔۔ میری ایک دو بار ایئر پورٹ پر ان سے ملاقات ہوئی تھی ۔۔۔ فی زمانہ اس قدر عاجزی و انکساری کسی انسان میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔
یہ کچھ اشعار جنید جمشید بھائی کے سانحۂ ارتحال پر کہے تھے، اور گھر سے دفتر جاتے ہوئے گاڑی چلاتے ہوئے موبائل میں ریکارڈ کیے تھے ۔۔۔آپ سب کی سماعتوں کی نظر
(مطلع کے دوسرے مصرعے کو نظر انداز کردیں، اس کی بعد میں تصحیح کر لی تھی)
مکمل نظم یہاں
جزاک اللہ یاسر بھائی ۔۔۔ بہت شکریہ
آپ کی بات درست ہے، بس پرانی غزل ہے، تو کچھ غلطیاں رہ گئیں۔
وہ کیوں؟
ہاہاہا ۔۔۔ ترنم سے پڑھنے میں تو کوئی حرج نہیں ۔۔۔ مگر اس کے لیے جو یکسوئی درکار ہے وہ میسر نہیں :)
تا کوئی مستقل حرف تو نہیں ہے.... تنافر تب ہوتا جب ت اور ت ملفوظا متصل ہوتے ... یہاں دنوں کے درمیان چونکہ الف مکمل ادا ہو رہا ہے اس لیے وہ دونوں کے درمیان فصل کر رہا ہے.
فیض والی مثال میں دو ک ملفوظا متصل آ گئے کیونکہ کا کی الف تقطیع میں ساقط ہے.
جناب یہ 2-1 کی گردان کے چکر میں تو میں نہیں پڑتا... البتہ تنافر کی سادہ سی تعریف یہ ہے کہ ایک ہی آواز متواتر آجائے ... یہ تواتر ملفوظی ہی ہوتا ہے، یعنی ایسا ممکن ہے کہ بظاہر مکتوبا تواتر نہ ہو، لیکن ملفوظا ہو، جیسا کہ فیض کے مصرعے کی مثال آپ نے دی.
لیکن بہرحال یہ ریاضی کا کوئی فارمولا نہیں ...