بزدار صاحب کو لاک ڈاؤن کی سمری دستخطوں کے لیے بھیجی گئی تو انھوں نے کہا کہ باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن یہ بکریاں کیوں کھلی رکھنی ہیں ؟
سٹاف افسروں نے بتایا ’سائیں یہ بکریاں نہیں، بیکریاں لکھا ہے‘
سعودیہ سے شاید لنگر خانے چلانے کے 19000بیگ چاول لا رہے ہیں۔
یہ 200 ارب والے صاحب یہیں سعودیہ ایمبیسی میں گئے تھے کہ جو فطرانہ، صدقہ وغیرہ آپ کانگو، موزمبیق اور روانڈا وغیرہ میں بھیجتے ہیں اس پروگرام میں پاکستان کو بھی شامل کر لیجیے۔ انھوں نے باقاعدہ تقریب منعقد کر کے شامل کر لیا۔
آزادی اظہار رائے نامی فتنے کا شکار، میڈیا گائیڈڈ میزائیلوں کی زد میں رہنے والے اور سرکاری مطالعہ پاکستان کے ڈسے ہوئے لوگ عموماً کسی کے کہنے سنے میں نہیں ہوتے۔ ہم نے عرصے سے ’دفع کرو، جانڑ دئیو جی‘ کا ماٹو اپنایا ہوا ہے اور آپ کو بھی یہی مخلصانہ مشورہ ہے۔ کنداں نال ٹکراں نہیں ماری دئیاں۔
مخالف یا شریکوں کی توہین کرنا یا کروانا یا توہین میں حصہ ڈالنا ایک بھر پورطاقت (انرجی) مہیا کرنے والا کام ہے۔ اس توہین پر انھیں تلملاتا دیکھ کر وجود کے بہت اندرتک ایک کمینی سے خوشی سارا دن دوڑتی پھرتی ہے۔ یہ ایک مزیدار کام ہے۔ :)