اکبر معصوم جتنے عمدہ شاعر ہیں اُتنےہی نفیس اور خلیق انسان ہیں۔ مجھے اُن سے دوستی پر فخر ہے۔ اُن کی عطا کردہ کتاب جناب صغیر ملال کا شعری مجموعہ اختلاف جو عرصہ سے نایاب ہے، آپ تمام احباب کے لیے ای بک کی شکل میں پیش ہے۔
Ikhtilaaf_Sagheer_Malaal.pdf
گزشتہ گیارہ برسوں کی روایت کا تسلسل
365 شاعر 365 چنیدہ موتی
اردو شاعری کی منظوم تاریخ اب
شاعری کیلنڈر 2017
کی شکل میں دستیاب ہے
انشاءاللہ 16 -20 دسمبر 2016
فضلی بک سپر مارکیٹ
کے سٹال
ایکسپو سنٹرمیں دستیاب ہوگا
برائے رابطہ
021-32212991
بارش ہے اور تو
کورے جسم کے جیسی ہے
مٹی کی خوشبو
وقت ہو فرصت جو
دن بھر دیکھیں دل بھر کے
رم کرتے آہو
کٹنا پڑتا ہے
مٹی ہوں اور پہلو میں
دریا پڑتا ہے
یہ گرداب نہ دیکھ
دیکھ یہ سارے جھوٹے ہیں
ایسے خواب نہ دیکھ
خود سے مل کر دیکھ
دوست یہیں مل جائیں گے
ایک سے بڑھ کر ایک
چین نہیں گھر میں
کوئی...
مٹی ہونا لیکن ان قدموں کی دھول نہ ہونا
قسمت میں تھا محنت کرنا، مول وصول نہ ہونا
عشق تو آخر عشق ہے گُل آرائی میں بھی پیارے
ہوش اگر باقی رہتا ہے پھر مشغول نہ ہونا
ناخن گڑ جاتے ہیں گردن کی باریک رگوں میں
کانٹا ہونا، تنکا ہونا، لیکن پھول نہ ہونا
تم پر لگ جائیں انھی بندوقوں کی آنکھیں
اس نگری میں...
کتنا رنگیں ہے دل کا ویرانہ
یاد آتی ہے بے حجابانہ
ہر فسانے میں اک حقیقت ہے
ہر حقیقت میں ایک افسانہ
پاس رہنا ہو یا بچھڑنا ہو
فیصلہ کیجئے دلیرانہ
ٖصرف تیری نیاز مندی کو
پھرتے رہتے ہیں، بے نیازانہ
اہلِ دانش عظیم ہیں لیکن
تیرا دیوانہ، تیرا دیوانہ
کوئی پتھر نہ چھیڑنا اسلمؔ
ساری دنیا ہے آئنہ خانہ
اک آسیب نگر ہے، دیکھ نہ میرے دل کی اور
چاروں جانب سناٹا ہے، چاروں جانب شور
چھپ کے جا بیٹھی ہے میرے من کے اندر دھوپ
چھائی تو کیا چھائی میرے سر پہ گھٹا گھنگھور
جانے آنکھوں میں بھر جائے کیوں ایسی تصویر
آزادی سے شہرو ں کی سڑکوں پر ناچیں مور
بندر جیسا ناچ رہا ہوں میں قرنوں کے بیچ
رہیں سلامت جن ہاتھوں...
آرزو خام اور نظر سطحی
کی بسر، ہم نے سربسر سطحی
شہر بھر کو اُچھال دیتی ہے
اُڑتی اُڑتی سی اک خبر سطحی
غرق دریا تو ہم کو ہونا تھا
ناخدا تھے بہت، مگر سطحی
دل میں کیا کیا خیال آتے ہیں
آج بھی تیرے نام پر، سطحی
رمز ہوگی کوئی سندیسے میں
اور کر دے گا نامہ بر سطحی
کوئی گہری نظر سے کیا دیکھے
گھومتے ہیں...
کوئی مسیحا مل جاتا ہے، لیکن قسمت دل کی
ٹھہر گیا ہے ایک مسلسل درد ضرورت دل کی
پتھر سے شیشہ ٹکرا کر پوچھ رہا ہے مجھ سے
اچھا جی، اب تم بتلاؤ کیا قیمت ہے دل کی
ہمی نے اپنے آپ کو سارے جگ میں خوار کیا ہے
ہمی نے بات زیادہ مانی ذہن کی نسبت دل کی
کس درجہ دشوار ہوا ہے سانس کا آنا جانا
کتنی اچھی لگتی تھی...
چپکے چپکے جو دل بکھرتا ہے
کہیں پانی ضرور مرتا ہے
رات کٹتی ہے ایک جنگل میں
ایک صحرا میں دن گذرتا ہے
کون رکھتا ہے خواب آنکھوں میں
کون رگ رگ میں زہر بھرتا ہے
ایک چہرے کو سامنے رکھ کر
آئنہ کس طرح سنورتا ہے!
گھر سے چلنا تھا، جی تو ڈرتا تھا
گھر کو چلنا ہے، جی تو ڈرتا ہے
جانے تارے کہاں چمکتے ہیں
جانے...
چاندنی ہے، غزل ہے، خوشبو ہے؟
یا خیالات میں کہیں تو ہے۱
دل کو پتھر بنا لیا، لیکن
یہ تو پتھر بھی آئینہ خُو ہے
ایک خاموش سلطنت ہے آنکھ
آنکھ کا تاجدار آنسو ہے
کتنی رونق ہے میرے آنگن میں
چار تنکے ہیں، ایک جگنو
یہ مرا دل ہے، یا کوئی جنگل
یہ ترا عکس ہے کہ آہو ہے
ساری دنیا گریز پا مجھ سے
ساری دنیا کسی...
یہ واقعہ ہے کہ آنکھوں نے خواب دیکھا ہے
کسی کا عکس مرے آئنے سے نکلا ہے
دیارِ خواب میں تب آندھیوں کا پہرا تھا
چراغ لَو نہیں دیتے، حضور اب کیا ہے!
تِرے خیال سے نکلوں تو کچھ سمجھ پاؤں
یہ مرے چاروں طرف شہر ہے کہ صحرا ہے
وہ بے خبر ہے ابھی چاند کی حقیقت سے
اسی لیے تو سمندر اُچھلنے لگتا ہے
اک اجنبی تو...
اچانک جب کبھی تیری حویلی یاد آتی ہے
اذیت جس قدر بھی دل نے جھیلی، یاد آتی ہے
کوئی بھی زندگی کا مسئلہ باقی نہیں رہتا
تِری پوچھی ہوئی جب جب پہیلی یاد آتی ہے
مہک، آواز، رنگت، روشنی، مسکان، خاموشی
جب آتی ہے کہاں تیری اکیلی یاد آتی ہے
چمن میں جب نظر پڑتی ہے شاخِ گل کے سائے پر
تِرے جذبات کی محرم سہیلی...
مٹی کا منتر نہیں دیکھا
جس نے کچا گھر نہیں دیکھا
پیکر کی خوشبو نہیں دیکھی
خوشبو کا پیکر نہیں دیکھا
زخم خریدے، خواب کے بدلے
دل سا سوداگر نہیں دیکھا
ہم نے خود کو آگ لگا لی
اور اس نے مڑ کر نہیں دیکھا
تو نے بھی مسکان ہی دیکھی
سینے کے اندر نہیں دیکھا
آنکھوں کی تصویر ہوا ہے
جس کو جیون بھر نہیں دیکھا...
کوئی زندہ سُخن اور اپنے بس میں
کنول کِھلتے نہیں کنج قفس میں
کسی کُچلے ہوئے جگنو کی صورت
ہمیں بھی رینگنا تھا خار و خس میں
ہمیشہ کی طرح اب کے بھی سوچا
سنبھل جائیں گے ہم اگلے برس میں
مگر کوئی سمجھ پاتا بھی کیسے
ہمارا عشق تھا شامل ہوس میں
کسی کو توڑ ہی دیتی ہیں یکسر
کسی کو راس آجاتی ہیں رسمیں
دراڑیں...
بدن ہے کاغذی اور آگ سر پر
اسی حالت میں نکلا ہوں سفر پر
مجھے تو آپ اپنی جستجو ہے
کہیں باہر ہی ملتا ہوں نہ گھر پر
کہیں ایسا نہ ہو واپس نہ آئے
نظر رکھتا ہوں میں اپنی نظر پر
مرے سائے کی رنگت دیکھتے ہو
کہا تھا، مت چلو مری ڈگر پر
بھلے اتریں بلائیں ہی بلائیں
مگر ایسی حیات مختصر پر!
انڈیلے ہیں اسی نے سر...
دیکھ تو، دل میں داغ کتنے ہیں
اس کھنڈر میں چراغ کتنے ہیں
ہم تو ناداں ہے تیری محفل میں
لوگ عالی دماغ کتنے ہیں
جس نے صحرا ہی کر دیا دل کو
اس کے لہجے میں باغ کتنے ہیں
اب سلگتے ہیں لب تو کیا کیجے
آنسوؤں کے ایاغ کتنے ہیں
یوں تو سورج ہیں چار سُو اسلمؔ
روشنی کے سُراغ کتنے ہیں
محترم ! دعاؤں کے لیے شکریہ۔مگر آپ ڈاکٹر توصیف تبسم کے لیے بھی دعا کریں جنہوں نے مجھ پر کرم فرمائی کی اور اس کتاب کی صورت میں میری بھی دیرینہ آرزو پوری کی