داغ دل، داغ جگر، نقش وفا، نقش جفا
نہ مٹانے سے مٹیں گے یہ ابھرنے والے
داغ کہتے ہیں جنہیں، دیکھیے، وہ بیٹھے ہیں
آپ کی جان سے دور، آپ پہ مرنے والے ہیں
داغ دہلوی
جگر
تک رہا تھا روک کر اپنی روانی دور سے
صاحبان صبر کو دریا کا پانی دور سے
علم کو جانا پڑا چل کر جوار جہل تک
کیسے سمجاتا شہادت کے معانی دور سے
شیر خوار آغوش بابا میں بزرگی پا گیا
دیکھتی ہی رہ گئی اس کو جوانی دور سے
نوک نیزہ پر سجی تھی اس لئے قندیل نور
کم نظر بھی دیکھ لیں حق کی نشانی دور سے
یہ متاع...
شکریہ شمشاد بھائی میں نے اسے ایک ٹیکسٹ بک میں پڑھا تھا
اکثرٹیکسٹ بکس میں الفاظ تبدیل کر دئے جاتے ہیں
یہ مصرعہ بھی چونکہ وزن میں تھا اس لئے ریسرچ کرنا گراں گزرا
ایک بار پھر شکریہ
ویسے میرا خیال ہے کہ سرھانے دو چشمی (ھ ) کے ساتھ لکھا جاتا ہے
ادھر سے ابر اٹھ کر جو گیا ہے
ہماری خاک پر بھی رو گیا ہے
مصائب اور تھے، پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
سرھانے میر کے کوئی نہ بولو..!
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے..
خراماں خراماں چلا جا رہا ہوں
کہ الفت کی راہوں سے نا آشنا ہوں
واہ ذیش بھائی بہت خوب، مطلع بہت خوبصورت ہے.
باقی اشعار بھی اچھے ہیں. اساتذہ کرام کی آرا کا انتظار کرتے ہیں
استاد محترم ایک صورت نظر تو آئی ہے
"میرے شانوں سے اپنی زلفوں تک
ہیں جو سالوں کی دوریاں، دیکھو..!"
لیکن حضور مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح
idea اور situation
دونوں تبدیل ہو گئے ہیں.
Genuine ideaبرقرار نہیں رہا.
آپ کی آمد کا انتظار ہے...