عاصم صاحب غزل کا کوئی حاشیہ نہیں ہوتا کہ جس میں اشعار کی لمبی چوڑی تشریح لکھی جائے۔ معنی فی البطن شاعر کے نام سے رائج اصطلاح کا یہی مطلب ہے کہ جب ابلاغ میں سقم کی وجہ سے ابیات کی تشریح کر کے بتانا پڑے۔ شعر کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنا مفہوم خود بیان کرے۔ مصرعوں کو نثر کے قریب لائیے اور خود...
نا کا لفظ یا تو تاکیدی طور پر استعمال ہوتا ہے جیسا کہ " آپ یہ بات سمجھ جائیں نا!" یا یہ بطور سابقہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ناچار، نامعقول، نالائق ناسمجھ۔ البتہ لفظ نہ نفی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اسے کوتاہ شمار کیا جاتا ہے
کچھ مزید تجاویز
رقیبو تمہاری دعا چاہتا ہوں
میں حرفِ غلط ہوں مٹا چاہتا ہوں
درست
مجھے بادِ صر صر سے شکوہ نہیں ہے
کہ اجڑا شجر ہوں گرا چاہتا ہوں
میں اجڑا شجر ہوں گرا چاہتا ہوں
یا
میں بوڑھا ۔ ۔
مرے سوزِ دل کو نئی آنچ دے جو
مسیحا میں ایسی دوا چاہتا ہوں
تری زلف چھیڑے جو ناز و ادا سے
میں وہ شوخ...
جب بات بحور اور ان کے اراکین کی ہو تو چند گنے چنے افاعیل سب جانتے ہیں جیسا کہ فعولن، فاعلاتن، مفاعیلن وغیرہ۔ اگر آپ ان ارکان کی ہئیت پر غور کر یں تو یہ ہمارے شعروں کے الفاظ انہی اراکین کے ہم ہیئت ہوتے ہیں مثال کے طور پر جمالی کو دیکھ لیجیے اگر اس لفظ کو توڑیں گے تو جَ ما لی پہلے حرف کے...
نیز اس طرح کی بحور میں مصرع کو اگر دو برابر حصوں میں بانٹا جائے تو لفظ ٹوٹیں نہ مکمل ادا ہو ں تو روانی متاثر نہیں ہوتی جیسا کہ آپ کی غزل میں اس بات کو ملحوظ رکھا گیا ہے