دفتر کے دروازے پر لکڑی کا اِک تختہ نصب ہے برسوں سے
اُس عمر رسیدہ تختے کا کوئی نام بھی ہو گا
عُرفِ عام میں اُس کو ہم سب چوکیدار ہی کہتے ہیں
موٹے میلے کالے کپڑوں کا وہ قیدی
کُھلی فضا کا زندانی
دو عیدوں پر کچھ نہ کچھ ہم حاتم طائی لوگوں سے وہ پا لیتا ہے
کمر ہلالی رنگت کالی بجھتی آنکھیں ہر موسم میں...