نتائج تلاش

  1. عبد الرحمٰن

    میرا کیفیت نامہ

    تو ن لیگ پر کر لیں جو باپ کے بعد اولاد کو ہی ترجیح دیتے ہیں جس کو پورے ملک میں ایک ایسا انسان نہیں ملا جو پارٹی کا لیڈر بن سکے
  2. عبد الرحمٰن

    میرا کیفیت نامہ

    ہم نے بدلا ہے پنچاب ہم بدلیں گے پاکستان والے بھی کم نہیں ہیں
  3. عبد الرحمٰن

    میرا کیفیت نامہ

    دیکھ لو جتنا مرضی پیار ہو بات ملک کی آتی ہے تو لوگ برداشت نہیں کرتے محبت اپنے وطن کے ساتھ مخلص ہے
  4. عبد الرحمٰن

    اردو محفل پر اقبال ساجد کی غزلیں

    ریختہ سے لیا گیا ہے حوالہ حاضر خدمت ہے اقبال ساجد کی غزلیں | ریختہ
  5. عبد الرحمٰن

    میرا کیفیت نامہ

    ہر شہر کی اپنی الگ بات ہے پاکستان کی کیا بات ہے اس کی مثل کوئی ملک نہیں یہ ٹھیک فقرہ ہے
  6. عبد الرحمٰن

    اردو محفل پر اقبال ساجد کی غزلیں

    ہر گھڑی کا ساتھ دکھ دیتا ہے جان من مجھے ہر کوئی کہنے لگا تنہائی کا دشمن مجھے دن کو کرنیں رات کو جگنو پکڑنے کا ہے شوق جانے کس منزل میں لے جائے گا پاگل پن مجھے سادہ کاغذ رکھ کے آیا ہوں نمائش گاہ میں دیکھ کر ہوتی تھی ہر تصویر کو الجھن مجھے ناچتا تھا پاؤں میں لمحوں کے گھنگرو باندھ کر دے گیا دھوکا...
  7. عبد الرحمٰن

    اردو محفل پر اقبال ساجد کی غزلیں

    موند کر آنکھیں تلاش بحر و بر کرنے لگے لوگ اپنی ذات کے اندر سفر کرنے لگے مانجھیوں کے گیت سن کر آ گیا دریا کو جوش ساحلوں پہ رقص تیزی سے بھنور کرنے لگے بڑھ گیا ہے اس قدر اب سرخ رو ہونے کا شوق لوگ اپنے خون سے جسموں کو تر کرنے لگے باندھ دے شاخوں سے تو مٹی کے پھل کاغذ کے پھول یہ تقاضا راہ میں اجڑے...
  8. عبد الرحمٰن

    اردو محفل پر اقبال ساجد کی غزلیں

    گڑے مردوں نے اکثر زندہ لوگوں کی قیادت کی مری راہوں میں بھی حائل ہیں دیواریں قدامت کی نئی کرنیں پرانے آسماں میں کیوں جگہ پائیں وہ کافر ہے کہ جس نے چڑھتے سورج کی عبادت کی پرانی سیڑھیوں پر میں نئے قدموں کو کیوں رکھوں گراؤں کس لئے چھت سر پہ بوسیدہ عمارت کی ترا احساس بھی ہوگا کبھی میری طرح پتھر...
  9. عبد الرحمٰن

    اردو محفل پر اقبال ساجد کی غزلیں

    کٹتے ہی سنگ لفظ گرانی نکل پڑے شیشہ اٹھا کہ جوئے معانی نکل پڑے پیاسو رہو نہ دشت میں بارش کے منتظر مارو زمیں پہ پاؤں کہ پانی نکل پڑے مجھ کو ہے موج موج گرہ باندھنے کا شوق پھر شہر کی طرف نہ روانی نکل پڑے ہوتے ہی شام جلنے لگا یاد کا الاؤ آنسو سنانے دکھ کی کہانی نکل پڑے ساجدؔ تو پھر سے خانۂ دل میں...
  10. عبد الرحمٰن

    اردو محفل پر اقبال ساجد کی غزلیں

    سرسبز دل کی کوئی بھی خواہش نہیں ہوئی وہ ہے زمین دل جہاں بارش نہیں ہوئی روئے ہوئے بھی ان کو کئی سال ہو گئے آنکھوں میں آنسوؤں کی نمائش نہیں ہوئی دیوار و در ہیں پاس مگر ان کے باوجود اپنے ہی گھر میں اپنی رہائش نہیں ہوئی باب سخن میں اب وہی مشہور ہو گئے وہ جن کے ذہن سے کوئی کاوش نہیں ہوئی
  11. عبد الرحمٰن

    اردو محفل پر اقبال ساجد کی غزلیں

    خدا نے جس کو چاہا اس نے بچے کی طرح ضد کی خدا بخشش کرے گا اس لیے اقبال ساجدؔ کی گواہی دے گا اک دن خود مرا منصف مرے حق میں دھری رہ جائیں گی ساری دلیلیں مرے حاسد کی وہی جو پہلے آیا تھا وہ سب کے بعد بھی آیا اسی پیکر نے تو پہچان کروائی ہے موجد کی جو میرے دل میں تھی اس نے وہی تحریر پہنچائی اب اس سے...
  12. عبد الرحمٰن

    اردو محفل پر اقبال ساجد کی غزلیں

    ختم راتوں رات اس گل کی کہانی ہو گئی رنگ بوسیدہ ہوئے خوشبو پرانی ہو گئی جس سے روشن تھا مقدر وہ ستارہ کھو گیا ظلمتوں کی نذر آخر زندگانی ہو گئی کل اجالوں کے نگر میں حادثہ ایسا ہوا چڑھتے سورج پر دیئے کی حکمرانی ہو گئی رہ گئی تھی لعل بننے میں کمی اک آنچ کی آنکھ سے گر کر لہو کی بوند پانی ہو گئی...
  13. عبد الرحمٰن

    اردو محفل پر اقبال ساجد کی غزلیں

    تم مجھے بھی کانچ کی پوشاک پہنانے لگے میں جسے دیکھوں وہی پتھر نظر آنے لگے بے سبب گھر سے نکل کر آ گئے بازار میں آئنہ دیکھا نہیں تصویر چھپوانے لگے دشت میں پہنچے تو تنہائی مکمل ہو گئی بڑھ گئی وحشت تو پھر خود سے ہی ٹکرانے لگے خون کا نشہ چڑھا تو جسم زہریلا ہوا خواہشوں کے پانیوں میں سانپ لہرانے لگے...
  14. عبد الرحمٰن

    اردو محفل پر اقبال ساجد کی غزلیں

    ایسے گھر میں رہ رہا ہوں دیکھ لے بے شک کوئ جس کے دروازے کی قسمت میں نہیں دستک کوئی یوں تو ہونے کو سبھی کچھ ہے مرے دل میں مگر اس دکاں پر آج تک آیا نہیں گاہک کوئی وہ خدا کی کھوج میں خود آخری حد تک گیا خود کو پانے کی مگر کوشش نہ کی انتھک کوئی باغ میں کل رات پھولوں کی حویلی لٹ گئی چشم شبنم سے چرا...
  15. عبد الرحمٰن

    اردو محفل پر اقبال ساجد کی غزلیں

    اک طبیعت تھی سو وہ بھی لاابالی ہو گئی ہائے یہ تصویر بھی رنگوں سے خالی ہو گئی پڑھتے پڑھتے تھک گئے سب لوگ تحریریں مری لکھتے لکھتے شہر کی دیوار کالی ہو گئی باغ کا سب سے بڑا جو پیڑ تھا وہ جھک گیا پھل لگے اتنے کہ بوجھل ڈالی ڈالی ہو گئی اب تو دروازے سے اپنے نام کی تختی اتار لفظ ننگے ہو گئے شہرت بھی...
  16. عبد الرحمٰن

    اردو محفل پر اقبال ساجد کی غزلیں

    اک ردائے سبز کی خواہش بہت مہنگی پڑی وقت پڑنے پر ہمیں بارش بہت مہنگی پڑی ہاتھ کیا تاپے کہ پوروں سے دھواں اٹھنے لگا سرد رت میں گرمئ آتش بہت مہنگی پڑی موم کی سیڑھی پہ چڑھ کر چھو رہے تھے آفتاب پھول سے چہروں کو یہ کوشش بہت مہنگی پڑی خار قسمت کیا نکالے ہاتھ زخمی کر لیے ناخن تدبیر کی کاوش بہت مہنگی...
Top