اسی غزل کے چند اشعار
کر رُوح تازہ تُربتِ عاشِق پہ ڈال کر
باسی تِرے گلےکے اگر ہار ہوگئے
دل جاں بلب، جِگرمیں تپک، جان بےقرار
ہم تیرا نام لے کے گنہگار ہو گئے
لِکھا جو وصف چہرۂ رنگینِ یار کا
کاغذ کےتختےتختۂ گُلزار ہوگئے
پردے نے اُٹھ کے پردۂ اُلفت اُٹھا دیا
ہم بے خَبَر ہوئے وہ خَبَردار ہو گئے