رُتوں کے ساتھ دلوں کی وہ حالتیں بھی گئیں
ہوا کے ساتھ ہوا کی امانتیں بھی گئیں
تیرے کہے ہوئے لفظوں کی راکھ کیا چھیڑیں
ہمارے اپنے قلم کی صداقتیں بھی گئیں
جو آئے جی میں پکارو مجھے مگر یوں ہے
کہ اُس کے ساتھ اُس کی محبتیں بھی گئیں
عجیب موڑ پہ ٹھہرا ہے قافلہ دل کا
سکون ڈھونڈنے نکلے تھے وحشتیں بھی...
پھرتا ہے پشیمان وہ خود روٹھ کر اب کے
ہر بار منانا مرا دستور نہیں ہے
بہت عمدہ غزل کی تخلیق پر بہت سی داد قبول فرمائیں۔۔۔۔ مندرجہ بالا شعر کی کیفیت دیکھ کر ہم تو سفارش کریں گے کہ اگر ممکن ہو تو آپ اپنے دستور میں ترمیم فرما دیں۔
واہ ! بڑی تحقیق اور مغز ریزی کے بعد ہی یہ مضمون لکھا گیا ہو گا۔ لکھنے والا بچہ اگر 35 سال سے بڑا نہیں ہے تو اُس کے لیئے کسی بڑے انعام کی سفارش کی جانی چاہیئے۔
حرفِ تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے
باب اک اور محبت کا کُھلاچاہتا ہے
ایک لمحے کی توجہ نہیں حاصل اُس کی
اور یہ دل کہ اُسے حد سے سوا چاہتا ہے
اک حجابِ تہہِ اقرار ہے مانع ورنہ
گُل کو معلوم ہے کیا دستِ صبا چاہتا ہے
ریت ہی ریت ہے اِس دل میں مسافر میرے
اور یہ صحرا تیرا نقشِ کفِ پا چاہتا ہے...
خواباں وچ تکیاں نئیں سن ساڑن والیاں چھانواں
کدی خیال وی نئیں سی دُھپے وی ٹھر جانائیں
واہ جی واہ بھلکڑ سائیں۔۔۔ ودھیا تے ڈونگھا کلام۔ جیندے تے وسدے رہو۔