ستم گزرا بلا گزری الم گزرا قضا گزری
مگر تو نے کبھی پوچھا ہمارے دل پہ کیا گزری؟
فقط اک بار ہم کو چھیڑ کر وہ دلربا گزری
نہ کوئی شب ہوئی جو قلب کو چھیڑے بنا گزری
اگر پیرانہ سالی ہوش میں لائی تو کیا حاصل
جوانی تو خمارِ عشق میں ہی مبتلا گزری
کسی نے بات میرے حال کی چھیڑی مذاقاً ہی
مگر شاق اُس...