جب قدم اُٹّھے تِرا، سینے پہ گھن پڑنے لگیں
یہ ہمکتی چال ، اے سروِ خِراماں ! چھوڑ دے
گونجتا ہے جِس سے پِیری میں جوانی کا خروش
وہ لگاوٹ اے شبابِ تُند و جولاں چھوڑ دے
جوؔش ملیح آبادی
غزل
رقم کریں گے تِرا نام اِنتسابوں میں
کہ اِنتخابِ سُخن ہے یہ اِنتخابوں میں
مِری بَھری ہُوئی آنکھوں کو چشمِ کم سے نہ دیکھ
کہ آسمان مُقیّد ہیں، اِن حبابوں میں
ہر آن دِل سے اُلجھتے ہیں دو جہان کے غم
گِھرا ہے ایک کبُوتر کئی عقابوں میں
ذرا سُنو تو سہی کان دھر کے نالۂ دِل
یہ داستاں نہ ملے گی...
غزل
کوئی پیکر ہے، نہ خوشبُو ہے، نہ آواز ہے وہ
ہاتھ لگتا ہی نہیں، ایسا کوئی راز ہے وہ
ایک صُورت ہے جو مِٹتی ہے، بَنا کرتی ہے
کبھی انجام ہے میرا ،کبھی آغاز ہے وہ
اُس کو دُنیا سے مِری طرح ضَرر کیوں پُہنچے
میں زمانے کا مُخالِف ہُوں، جہاں ساز ہے وہ
لوگ اُس کے ہی اِشاروں پہ اُڑے پِھرتے ہیں
بال...