You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
-
تجھ سے ملِنے کو بے قرار تھا دِل
تجھ سے مِل کر بھی بے قرار رہا
رساؔ چغتائی
-
آئینہ آئینہ رہا پھر بھی
لاکھ در پردۂ غبار رہا
رساؔ چغتائی
-
رکھّے گا خاک ربط وہ اِس کائِنات سے
جو ذرّہ اپنی ذات کے اندر سمٹ گیا
قتِیلؔ شفائی
-
حِجاب میں بھی، اُسے دیکھنا قیامت ہے !
نقاب میں بھی ، رُخِ شُعلہ زن کی آنچ نہ پُوچھ
فِراؔق گورکھپُوری
-
اُن سے مِری بیماریِ دِل میں ہے اضافہ
ہے رُوحِ شفا جن کے تنفُّس کی َہوا بھی
سراج الدین ظفؔر
-
ختم کردے، اے صباؔ ! اب شامِ غم کی داستاں
دیکھ! اُن آنکھوں میں بھی ،آنسو نظر آنے لگے
صباؔ افغانی
-
بے اثر ہوتے ہُوئے حرف کے اِس موسم میں
کیا کہُوں،کِس سے کہُوں، کوئی نہیں لِکّھے گا
افتخار عارفؔ
-
شہرِ آشوب کے لِکھنے کو جِگر چاہیے ہے
مَیں ہی لِکُّھوں تو لکُھوں، کوئی نہیں لِکّھے گا
افتخار عارفؔ
-
عرضِیاں ساری نظر میں ہیں رَجَز خوانوں کی !
سب خبر ہے ہَمَیں کیُوں، کوئی نہیں لِکّھے گا
افتخار عارفؔ
-
خلقَتِ شہر ،سر آنکھوں پہ بِٹھاتی تھی جِنھیں !
کیوں ہُوئے خوار و زبُوں، کوئی نہیں لِکّھے گا
افتخار عارفؔ
-
حرف ِ تردِید سے پڑ سکتے ہیں سَو طرح کے پیچ
ایسے سادہ بھی نہیں ہیں کہ وضاحت کریں ہم
اِفتخار عارفؔ
-
وہ نام، جو برسوں سے سمایا ہے ذہن میں
وہ خواب اگر ہے تو بِکھر کیوں نہیں جاتا
نِدؔا فاضلی
-
بے نام سا ، یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا
جو بِیت گیا ہے، وہ گُزر کیوں نہیں جاتا
نِدؔا فاضلی
-
بات بہت معمُولی سی تھی، اُلجھ گئی تکراروں میں
ایک ذرا سی ضد نے آخر، دونوں کو برباد کِیا
نِدؔا فاضلی
-
بڑے بڑے غم کھڑے ہُوئے تھے راستہ روکے راہوں میں
چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے ہی، ہم نے دِل کو شاد کِیا
نِدؔا فاضلی
-
آج ذرا فُرصت پائی تھی، آج اُسے پِھر یاد کِیا
بند گلی کے آخری گھر کو ، کھول کے پِھر آباد کِیا
نِدؔا فاضلی
-
واپس نہ جا وہاں ، کہ تِرے شہر میں مُنؔیر !
جو جِس جگہ پہ تھا، وہ وہاں پر نہیں رہا
منؔیر نیازی
-
سفر میں ہے جو ازل سے، یہ وہ بَلا ہی نہ ہو!
کواڑ کھول کے دیکھو، کہیں ہَوا ہی نہ ہو
منؔیر نیازی
-
زمِیں کے گرد بھی پانی، زمِیں کے تہ میں بھی !
جو شہر جم کے کھڑا ہے،وہ تیرتا ہی نہ ہو
منؔیر نیازی
-
نہ جا، کہ اِس سے پرے دشتِ مرگ ہو شاید
پلٹنا چاہے وہاں سے، تو راستہ ہی نہ ہو
منؔیر نیازی