میڈم جاسمن!
اِصلاحِ سخن میں جو مراسلہ ارسال کرنا ہوتا ہے اگر اس میں ٹیگ کرنا ہے تو کیسے کرتے ہیں۔۔۔۔۔؟؟
میں نے کئی دفعہ کوشش کی مگر بار بار کوئی نقص آ جا رہا ہے۔
استاد محترم الف عین،محمد احسن سمیع راحل، محمد خلیل الرحمٰن ،سید عاطف علی
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے۔
میں غزل نہیں کوئی میر کی نہ میں داستاں ہوں شہیر کی
میں ہوں نالۂ شب سہ پہر میں صدا ہوں بے کل فقیر کی
کبھی سر بہ سجدہ جبین تھی میں نمازیوں کی زمین تھی
مجھے آکے کوئی رہا کرے یہی...
بہت خوب میڈم۔۔۔۔۔۔
مجھے لگتا ہے کہ عشاق اردو عشاق چائے بھی ہوتے ہیں۔
لفظ چائے کتنا پر سکون ہے نہ ؟
نام سے ہی تھکان اتر سی جاتی ہے۔۔۔۔میں نے ذرا غور کیا اور پایا کی بس لفظ چائے کے ساتھ ہی یہ کیفیت وابستہ
ہے ورنہ کوئی Tea بول کر دیکھے نہ وہ کیفیت نہیں ہوتی نہ ہی ویسا اثر جو کی چائے کے ساتھ منسلک...
عمدہ تحریر ہے۔۔۔۔اور میرے لئے تو بہت عمدہ
میرے جاننے والے اس بات سے آگاہ ہیں کہ جب مجھ سے زیادہ کام نکلوانا ہو تو وقفے وقفے سے چائے کا کپ پیش کرتے رہیں۔
اپنا حال کچھ یوں ہے کہ۔۔۔۔۔
بیٹھ جاتی ہیں وہاں
چائے بن رہی ہو جہاں
علم طبعی کے اصولوں کو بدل کر دیکھیں
ہم ذرا دیر ہواؤں میں ٹہل کر دیکھیں
ابر تھم جاتا ہے پر چھت ہے برستی تادیر
ٹھہریں اک رات مرے گھر پہ بہل کر دیکھیں
پیٹ کی آگ سے بڑھ کر کوئی آتش ہی نہیں
بھوک کیا شئے ہے کبھی بھوک میں جل کر دیکھیں
زندگی کیسے گزرتی ہے بلا مسکن کے
جاننا یہ ہے تو پھر گھر سے نکل کے...
میں ذکر یار سر عام کرنے آئی ہوں
متاعِ جان میں نیلام کرنے آئی ہوں
وہ طور و طرز کہ ہو جس سے بشریت زخمی
میں اُن اصولوں کا اتمام کرنے آئی ہوں
مری نوائے دل افگار کو یوں ہی نہ سمجھ
پیامِ فردا ترے نام کرنے آئی ہوں
ملائے خاک میں اعلیٰ نظام تم نے جو
میں اُن نظام کو پھر عام کرنے آئی ہوں
جو روند ڈالتے...
چلو بےسبب ہم یوں ہی مسکرائیں
محبّت کے قصے سنیں اور سنائیں
یہ نفرت کی آندھی ہے دمدار کتنی
جلا کر دیئے اس کا زور آزمائیں
یوں چپ چاپ سہتے رہیں ظلم کب تک
جب ایسے ہے جینا تو ہم مر نہ جائیں
عبادت ہے جنت تو خدمت خدا ہے
کریں خدمتِ خلق اور رب کو پائیں
یہ آنسو نہیں یہ ہیں شبنم کے قطرے
گرا کر کلی پر...