نتائج تلاش

  1. محمل ابراہیم

    فضا ابنِ فیضی کی شاعری و مختصر تعارف

    بہت شکریہ میڈم:) قربان جاؤں آپ کے علم پر
  2. محمل ابراہیم

    میرے پسندیدہ اشعار

    دن میں جس کیڑے کو تحقیر سے دیکھا میں نے رات میں اُس کو چمکتا ہوا جُگنو پایا سحؔر
  3. محمل ابراہیم

    غزل برائے اصلاح

    اصلاح کے بعد______ کیا ہے آخر اسے پریشانی؟ میرے دل میں جو ہے یہ ویرانی چاہتی ہُوں کہ خوش رہوں لیکن مجھ سے خوشیاں ہوئیں ہیں بیگانی خوں کا دریا رواں تھا آنکھوں سے تم سمجھتے رہے جسے پانی جس کی بنتی نہیں وضاحت کچھ مجھ کو وہ بات بھی ہے سمجھانی طبع سے میں تمہاری واقف ہوں مجھ کو سمجھو نہ اتنی...
  4. محمل ابراہیم

    غزل برائے اصلاح

    مجھ نا چیز کو دوسرے مصرعے کی روانی بہتر معلوم نہیں ہوتی اگر اسے ایسے کر دوں___ میرے دل میں ہے کیوں یہ ویرانی؟
  5. محمل ابراہیم

    غزل برائے اصلاح

    محترم اساتذہ الف عین محمد احسن سمیع:راحل محمد خلیل الرحمٰن سید عاطف علی و دیگر اساتذہ کرام آداب آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے۔۔۔۔ کیا ہے آخر اسے پریشانی؟ میرے پہلو میں کیوں ہے ویرانی؟ چاہتی ہُوں کہ خوش رہوں لیکن مجھ سے خوشیاں ہوئیں ہیں بیگانی خون روئی تھیں میری آنکھیں پر تم سمجھتے رہے...
  6. محمل ابراہیم

    غزل برائے اصلاح

    محترم اساتذہ سے نظر ثانی کی ملتجی______ اُداس تنہا،کھڑی ہوں گم سم،ہیں مجھ میں پنہاں ہزارہا غم ہیں سرد آہیں،اُداس راہیں،امید زخمی،یقین بے دم کلستے زخموں نے مار ڈالا ہے، پھر بھی یاروں نکالو خنجر،چلاؤ نشتر کہ زخم میرے ہیں اب بھی کچھ کم دلِ شکستہ میں دفن ہو کر یوں خواہشوں نے وفات پا لی سو دل...
  7. محمل ابراہیم

    فضا ابنِ فیضی کی شاعری و مختصر تعارف

    سارا ٹائپ تو نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ابھی مجھے 36 غزلیں ہی ملی ہیں میں کوشش میں ہوں کی یہاں کم از کم ایک اُن کا ایک مجموعہ کلام ہی ارسال کر دوں۔
  8. محمل ابراہیم

    فضا ابنِ فیضی کی شاعری و مختصر تعارف

    رائیگاں سب کچھ ہوا کیسی بصیرت کیا ہنر گرد گرد اپنی بصیرت خاک خاک اپنا ہنر جس طرف دیکھو ہجوم چہرۂ بے چہرگاں کس گھنے جنگل میں یارو گم ہوا سب کا ہنر اب ہماری مٹھیوں میں ایک جگنو بھی نہیں چھین کر بے رحم موسم لے گیا سارا ہنر توڑ کر اس کو بھی اب کوئی ہوا لے جائے گی یہ جو برگ سبز کے مانند ہے...
  9. محمل ابراہیم

    فضا ابنِ فیضی کی شاعری و مختصر تعارف

    جبیں پہ گرد ہے چہرہ خراش میں ڈوبا ہوا خراب جو اپنی تلاش میں ڈوبا قلم اٹھایا تو سر پر کلاہ کج نہ رہی یہ شہریار بھی فکر معاش میں ڈوبا جھلے ہے پنکھا یہ زخموں پہ کون آٹھ پہر ملا ہے مجھ کو نفس ارتعاش میں ڈوبا اسے نہ کیوں تری دلداریٔ نظر کہیے وہ نیشتر جو دل پاش پاش میں ڈوبا فضاؔ ہے خالق...
  10. محمل ابراہیم

    فضا ابنِ فیضی کی شاعری و مختصر تعارف

    جبیں پہ گرد ہے چہرہ خراش میں ڈوبا ہوا خراب جو اپنی تلاش میں ڈوبا قلم اٹھایا تو سر پر کلاہ کج نہ رہی یہ شہریار بھی فکر معاش میں ڈوبا جھلے ہے پنکھا یہ زخموں پہ کون آٹھ پہر ملا ہے مجھ کو نفس ارتعاش میں ڈوبا اسے نہ کیوں تری دلداریٔ نظر کہیے وہ نیشتر جو دل پاش پاش میں ڈوبا فضاؔ ہے خالق صبح حیات...
  11. محمل ابراہیم

    فضا ابنِ فیضی کی شاعری و مختصر تعارف

    اقرا کی سوغات کی صورت آ ہونٹوں پر آیات کی صورت آ سوکھ چلے ہیں آنگن کے پودے بے موسم برسات کی صورت آ شاخ یقیں کی بے ثمری اور میں بار آور شبہات کی صورت آ میں پروردہ تیرہ بختی کا میرے گھر تو رات کی صورت آ میں اپنی تحدید میں ہوں مشغول آ توسیع ذات کی صورت آ فکر کے تیرہ خانے روشن کر لو...
  12. محمل ابراہیم

    فضا ابنِ فیضی کی شاعری و مختصر تعارف

    لہو ہماری جبیں کا کسی کے چہرے پر یہ روپ رس بھی سہی زندگی کے چہرے پر ابھی یہ زخم مسرت ہے ناشگفتہ سا چھڑک دو میرے کچھ آنسو ہنسی کے چہرے پر نوا کی گرد ہوں مجھ کو سمیٹ کر لے جا بکھر نہ جاؤں کہیں خامشی کے چہرے پر اس انقلاب پہ کس کی نظر گئی ہوگی غموں کی دھوپ کھلی ہے خوشی کے چہرے پر ہزیمتوں کے کس...
  13. محمل ابراہیم

    فضا ابنِ فیضی کی شاعری و مختصر تعارف

    سوال سخت تھا دریا کے پار اتر جانا وہ موج موج مگر خود مرا بکھر جانا یہ کیا خبر تمہیں کس روپ میں ہوں زندہ میں ملے نہ جسم تو سائے کو قتل کر جانا پڑا ہوں یخ زدہ صحرائے آگہی میں ہنوز مرے وجود میں تھوڑی سی دھوپ بھر جانا کبھی تو ساتھ یہ آسیب وقت چھوڑے گا خود اپنے سائے کو بھی دیکھنا تو ڈر جانا...
  14. محمل ابراہیم

    فضا ابنِ فیضی کی شاعری و مختصر تعارف

    تو ہے معنی پردۂ الفاظ سے باہر تو آ ایسے پس منظر میں کیا رہنا سر منظر تو آ آج کے سارے حقائق واہموں کی زد میں ہیں ڈھالنا ہے تجھ کو خوابوں سے کوئی پیکر تو آ تو سہی اک عکس لیکن یہ حصار آئنہ لوگ تجھ کو دیکھنا چاہیں برون در تو آ ذائقہ زخموں کا یوں کیسے سمجھ میں آئے گا پھینکنا ہے بند پانی میں کوئی...
  15. محمل ابراہیم

    فضا ابنِ فیضی کی شاعری و مختصر تعارف

    چہرہ سالم نہ نظر ہی قائم بے ستوں سب کی حویلی قائم ہاتھ سے موجوں نے رکھ دی پتوار کیسے دھارے پہ ہے کشتی قائم زیست ہے کچے گھڑے کے مانند بہتے پانی پہ ہے مٹی قائم سائے دیوار کے ٹیڑھے ترچھے اور دیوار کہ سیدھی قائم سب ہیں ٹوٹی ہوئی قدروں کے کھنڈر کون ہے وضع پہ اپنی قائم خود کو کس سطح پر...
  16. محمل ابراہیم

    فضا ابنِ فیضی کی شاعری و مختصر تعارف

    پایۂ خشت و خزف اور گہر سے اونچا قد یہاں بے ہنری کا ہے ہنر سے اونچا ایک دن غرق نہ کر دے تجھے یہ سیل وجود دیکھ ہو جائے نہ پانی کہیں سر سے اونچا مانگتا کس سے مجھے سنگ سرافرازی دے کوئی دروازہ تو ہوتا ترے در سے اونچا ہم قدم ہے تپش جاں تو پہنچ جاؤں گا ایک دو جست میں دیوار شجر سے اونچا ایک بگڑی...
  17. محمل ابراہیم

    فضا ابنِ فیضی کی شاعری و مختصر تعارف

    یہ کیا بتائیں کہ کس رہ گزر کی گرد ہوئے ہم ایسے لوگ خود اپنے سفر کی گرد ہوئے نجات یوں بھی بکھرنے کے کرب سے نہ ملی ہوئے جو آئنہ سب کی نظر کی گرد ہوئے یہ کن دکھوں نے چم و خم تمام چھین لیا شعاع مہر سے ہم بھی شرر کی گرد ہوئے سب اپنے اپنے افق پر چمک کے تھوڑی دیر مجھے تو دامن شام و سحر کی گرد...
  18. محمل ابراہیم

    فضا ابنِ فیضی کی شاعری و مختصر تعارف

    مدتوں کے بعد پھر کنج حرا روشن ہوا کس کے لب پر دیکھنا حرف دعا روشن ہوا روح کو آلائش غم سے کبھی خالی نہ رکھ یعنی بے زنگار کس کا آئنا روشن ہوا یہ تماشا دیدنی ٹھہرا مگر دیکھے گا کون ہو گئے ہم راکھ تو دست دعا روشن ہوا رات جنگل کا سفر سب ہم سفر بچھڑے ہوئے دے نہ ہم کو یہ بشارت راستا روشن ہوا...
  19. محمل ابراہیم

    فضا ابنِ فیضی کی شاعری و مختصر تعارف

    چھاؤں کو تکتے دھوپ میں چلتے ایک زمانہ بیت گیا حسرتوں کی آغوش میں پلتے ایک زمانہ بیت گیا آج بھی ہیں وہ سلگے سلگے تیرے لب و عارض کی طرح جن زخموں پر پنکھا جھلتے ایک زمانہ بیت گیا میں اب اپنا جسم نہیں ہوں صرف تمہارا سایہ ہوں موسم کی یہ برف پگھلتے ایک زمانہ بیت گیا اب تک اپنے ہاتھ نہ آیا...
  20. محمل ابراہیم

    فضا ابنِ فیضی کی شاعری و مختصر تعارف

    ہر اک قیاس حقیقت سے دور تر نکلا کتاب کا نہ کوئی درس معتبر نکلا نفس تمام ہوا داستان ختم ہوئی جو تھا طویل وہی حرف مختصر نکلا جو گرد ساتھ نہ اڑتی سفر نہ یوں کٹتا غبار راہ گزر موج بال و پر نکلا مجھے بھی کچھ نئے تیشے سنبھالنے ہی پڑے پرانے خول کو جب وہ بھی توڑ کر نکلا فضا کشادہ نہیں قتل...
Top