نبیل و ابن سعید برادران اور دیگر منتظمین کو میری جانب سے دلی ہدیہ تبریک۔(اللہ کرے زور بازو اور زیادہ)
محفل کا مواجہہ اس قدر خوبصورت ہوسکتا ہے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
اس شعر کا عام فہم اور سلیس ترجمہ یہ ہے:
عید اس کی نہیں جو نئے کپڑے پہن لے۔
عید تو اس کی ہے جو (آخرت کی) سزا سے ڈرتا ہو۔
یعنی اللہ تعالی نے جن کاموں پر سزا ملنے کی وعید سنائی ہے ان سے بچا جائے۔
واقعی اس کلام میں بعض استعارات اپنے مستعار لہ کی حقیقت کو جذبات سے قریب کردیتے ہیں، جس کا احساس ترجمہ سے بخوبی ہوتا ہے، کاش ہم پشتو کی ادبی زبان کچھ چیدہ چیدہ ہی سمجھ سکتے۔۔۔