شکریہ!
" یا دل یا ارادہ رہا مرتا کبهی کبهی" کیا یہ ٹهیک رہے گا؟
آخری شعر میں میری بات کا مقصد یہ ہے کہ جیسے پهول کی خوشبو نظر نہیں آتی انسان کی فطرت یا نیت کی طرح لیکن اصل قیمت اسی سے ہوتی ہے اور پہچان بهی. مگی کبهی کبهار ساری ویلیو انسان کی ظاہری خوبصورتی کی وجہ سے ہو جاتی ہے.
بہت شکریہ! اچها لگتا ہے کمنٹس پڑه کر اپنی شاعری پر. اصلاح ہو جایا کرے تو اور اچها ہو مگر آج کل تو کمنٹس بهی کافی کم ہو گئے ہیں. بہر حال آپ کا بہت شکریہ :)
کہا تم سے بهی کچھ نہیں جاتا
صبر بهی مجھ کو اب نہیں آتا
وہ بالآخر اتر گیا روح تک
درد دل میں رکها نہیں جاتا
ہے ہدایت مجهے میرے رب کی!
مجهے کافر کوئی نہیں بهاتا
وہ دلوں میں سنا ہے رہتا ہے
مجهے ہی کیوں نظر نہیں آتا
بڑے الزام لگ چکے مجھ پر
تیرا شکوہ سہا نہیں جاتا
یہاں زندگی کا کیا حال ہے
ہر آنکھ ہی پر ملال ہے
جسے دیکھیے ہے گهرا ہوا
بچها ظلمتوں کا وہ جال ہے
میرا ہر عمل ہوا بے اثر
تیرے حرف میں وہ کمال ہے
ہمہ وقت سر بہ سجود رہ
دینے والا رب ذوالجلال ہے
ہے زندگی میں موڑ یہ آتا کبهی کبهی
ایسے بهی کوئی شخص ہے بهاتا کبهی کبهی
چلتی رہی میں راہ محبت پہ بہر حال
مرتا رہا یا دل یا ارادہ کبهی کبهی
ہر پهول کا بوسہ لئے جاتی ہے پهر ہوا
کوئی اس طرح سے یاد ہے آتا کبهی کبهی
گو گلستاں میں گل کی ہے پہچان یہ مہک
پر رنگ ہی زینت ہے بناتا کبهی کبهی
کہا تم سے بهی کچھ نہیں جاتا
صبر مجھ کو بهی یوں نہیں آتا
وہ بالآخر اتر گیا روح تک
درد دل میں رکها نہیں جاتا
میرے رب سے مجهے ہدایت ہے!
مجهے کافر کوئی نہیں بهاتا
سنا ہے وہ دلوں میں رہتا ہے
مجهے ہی کیوں نظر نہیں آتا
بڑے الزام لگ چکے مجھ پہ
تیرا شکوہ سہا نہیں جاتا
تم میرا خواب یا حقیقت ہو
یا میرے آنسوؤں کی قیمت ہو
ایسے کهوتے ہو کهو ہی جاتے ہو..
للہ جانے کہ کیا مصیبت ہو.. :)
کہیں بهی آسرا نہیں ملتا
مجهے کس سے کوئی شکایت ہو
وہیں سوچوں نے ذہن گهیرا ہے
جہاں ملی ذرا بهی فرصت ہو
یہ سوچ کر قدم نہیں بڑهتے
تمہیں شاید میری ضرورت ہو
ہوا روشن کوئی پهر سے سویرا
ڈهلا ہے اب جو تها غم کا اندھیرا
سجا لے خواب آنکھوں میں نئے سے
ہوا پهر دل میں الفت کا بسیرا
تیرے ہیں ان بہاروں کے سبهی رنگ
سبهی کلیوں پہ اب حق بهی ہے تیرا
وہ بیتے رنج و غم سب کو بهلا دے
کہ سوتا جاگ اٹها ہے نصیب تیرا
یاں کچھ نہیں خوابوں کے سوا کیسے مان لوں
سب کاوشوں کا اس کو صلہ کیسے مان لوں
ہاتھوں کی لکیروں میں تیرا نام لکها ہے
میں تجھ کو بتا خود سے جدا کیسے مان لوں
جلتی رہی دنیا میری وہ دیکهتا گیا
میں ایسے رب کو اپنا خدا کیسے مان لوں
ہر چند گوارا نہیں اس کی دل ازاری
پر بار بار اس کا کہا کیسے مان لوں
محبت کو پنپنے کو
نکهرنے کو سنورنے کو
مہک کر چار سو خشبو کی طرح سے
بکهرنے کو
کوئی بهی خاص یا سوچے ہوئے لفظوں یا جملوں کی
تحائف کی یا پھولوں کی
یا شعروں کی یا گیتوں کی
یا وعدوں کی، یا قسموں کی ضرورت سن نہیں ہوتی
محبت تو فقط اس اک یقیں پہ زندہ رہتی ہے
کہ ہر مشکل ہر اک طوفان میں ڈهارس بنے گا وہ...