غزل
فکرِ سود و ذیاں سے اُٹھتا ہے
دل ترے خاکداں سے اُٹھتا ہے
جس کے دم سے تھی انجمن آباد
اب وہی درمیاں سے اُٹھتا ہے
اِک ستارہ جو تیرے نام کا تھا
حجرۂ کہکشاں سے اُٹھتا ہے
کوئی کُوئے نگار سے یُوں اُٹھا
جیسے خوابِ گراں سے اُٹھتا ہے
سُرخیٔ داستان بن کے کوئی
کیوں مری داستاں سے اُٹھتا ہے
کس...