مَیں نے تُمھارے ہِجر کی یُوں دیکھ بھال کی
جیسے عَزیز ہُوتی ہے روزی حَلال کی
وہ ساتھ دینا چاہے تو قِسمت بھی ساتھ دے
اَب اِس میں فَلسَفے کی ضَرورت نہ فال کی
جب سے پتہ چلا کہ سکوں چھینتی ہے یہ
نفرت، سبھی نے گاؤں سے باہر نکال کی
اے ہجر یار بنتا ہے تیرا بھی شکریہ
تو نے خزاں سے میری رفاقت بَحال کی...