نظر کے سامنے اک مہ جبیں کا پیکر ہے
لگا یہ حسنِ مصور کا ایک مظہر ہے
اٹھایا ہاتھوں میں تم نے کیوں کہ پتھر ہے
پلٹ کے دیکھو ترا خود بھی شیشے کا گھر ہے
جہاں بھی لے کے چلے اس کی اپنی مرضی ہے
خیال اس کا دلِ ناتواں کا رہبر هے
نہیں نہیں مجھے اتنا غریب مت جانو
کہ نیلے آسماں کی چھت مجھے میسر ہے
ملا ہوں...