نتائج تلاش

  1. رشید حسرت

    ھمارا ظرف۔

    ھمارا ظرف ھے یہ بھی، اگر خاموش رہتے ہیں نکل جاتے ہیں کھوٹے، کار گر خاموش رہتے ہیں ھماری بُرد باری کی لبوں پہ مُہر ھے، ورنہ بیاں پہ دسترس رکھتے ہیں، پر خاموش رہتے ہیں بتائیں کیا کہ کیسے مرحلے پہ زندگی ٹھہری نمی آنکھوں میں لے کر رات بھر خاموش رہتے ہیں پتہ لگنے نہیں پاتا، کہ دل کو عارضہ کیا ھے؟...
  2. رشید حسرت

    اُداس شامیں۔

    خموش صُبحیں، اُداس شامیں، ترا پتہ مجھ سے پوچھتی ہیں بتاؤں کیا اب کہ یہ فضائیں، پلٹ کے کیا مجھ سے پوچھتی ہیں اُداس چڑییں جو دن کو دانے کی کھوج میں تھیں ہیں لوٹ آئی کہاں ھے شاخِ شجر کہ جس پر تھا گھونسلہ، مجھ سے پوچھتی ہیں تمہیں تو صحرا نوردیوں میں کمال ھے کچھ ہمیں بتاؤ کمال کی ہیں جو ہستیاں...
  3. رشید حسرت

    گلوں کی پالکی۔

    گُلوں کی پالکی میں ھے، بہاروں کی وہ بیٹی ھے چہیتی چاند کی، روشن ستاروں کی وہ بیٹی ھے ھماری عزّتیں سانجھی ہیں بولی کوئی بھی بولیں کسی بھی ایک کی عفّت، سو چاروں کی وہ بیٹی ھے وہ چلتی ھے تو راہوں میں سُریلے ساز بجتے ہیں کسی اجلی ندی کے شوخ دھاروں کی وہ بیٹی ھے کیا ھے بے رِدا جس نے مِرے دہقاں کی...
  4. رشید حسرت

    رُوپ کے فسوں گر۔

    جن احباب نے میرے کلام کو سراہا ھے ان سب کا شکر گزار ھوں۔
  5. رشید حسرت

    رُوپ کے فسوں گر۔

    رُوپ کے فسُوں گر نے طِلسمی اداؤں سے شبنمی سحر آ کر خوشبُوؤں کے لہجے میں مجھ کو آن لُوٹا ھے اور میرے گھر آ کر گفتگو کے جھرنے میں دُودھیا رِداؤں کی اک بہار ساعت میں میں نے آزمایا تھا اک انا کی دیوی کے سامنے ہنر آ کر جسم کا شجر میرے جس طرح زمستاں میں برف اوڑھے ساکت ھے اک سوال پُوچھا ھے اُس نے...
  6. رشید حسرت

    کچھ سُنائی دیتا نہیں۔

    وہ شور ھے کہ یہاں کُچھ سُنائی دیتا نہیں تلاش جس کی ھے وہ کیوں دکھائی دیتا نہیں سُلگ رہا ہوں میں برسات کی بہاروں میں یہ میرا ظرف کہ پھر بھی دُہائی دیتا نہیں یتیم پالتی ھے بہن کِس مشقّت سے ھے دُکھ کی بات کہ امداد، بھائی دیتا نہیں زمیندار نے دہقاں کی پگ اُچھالی آج کہ فصل کاٹتا تو ھے، بٹائی دیتا...
  7. رشید حسرت

    شکستہ دل۔

    شِکستہ دل، تہی دامن، بچشمِ تر گیا آخر صنم مِل کر ہمیں پھر آج تنہا کر گیا آخر غریبِ شہر تھا، خاموش رہنے کی سزا پائی وفا کرنے پہ بھی الزام اُس کے سر گیا آخر یہ طے تھا ھم انا کے فیصلے سے منہ نہ موڑیں گے رہی دستار قائم تن سے لیکن سر گیا آخر بڑھا کر ہاتھ اُلفت کا سدا کی بے کلی دے دی تمہاری چاہ کر...
  8. رشید حسرت

    میلہ جا رہا ھے

  9. رشید حسرت

    اگرچہ دشوار تھا۔

  10. رشید حسرت

    بھولپن میں۔

  11. رشید حسرت

    میرے محسن نے

  12. رشید حسرت

    اک حویلی کے عقب میں۔

  13. رشید حسرت

    تقاضوں میں کبھی۔

  14. رشید حسرت

    آیا نہ کوئی لوٹ کر

  15. رشید حسرت

    آیا نہ کوئی لوٹ کر

  16. رشید حسرت

    سلسلہ چلتا رہے گا

  17. رشید حسرت

    اگرچہ ہیں مگر

  18. رشید حسرت

    قلب کی بے چینیاں

  19. رشید حسرت

    غزل۱

  20. رشید حسرت

    غزل

    اگرچِہ دُشوار تھا۔ اگرچہ دُشوار تھا مگر زیر کر لِیا تھا انا کا رستہ سہل سمجھ کر جو سر لِیا تھا وُہ کہکشاؤں کی حد سے آگے کہیں بسا ھے طلب میں جِس کی زمِیں پہ بوسِیدہ گھر لِیا تھا گُلوں کی چاہت میں ایک دِن کیا بِچھایا ھوگا کہ ھم نے کانٹوں سے اپنا دامان بھر لِیا تھا بڑھایا اُس نے جو...
Top