شِکستہ دل، تہی دامن، بچشمِ تر گیا آخر
صنم مِل کر ہمیں پھر آج تنہا کر گیا آخر
غریبِ شہر تھا، خاموش رہنے کی سزا پائی
وفا کرنے پہ بھی الزام اُس کے سر گیا آخر
یہ طے تھا ھم انا کے فیصلے سے منہ نہ موڑیں گے
رہی دستار قائم تن سے لیکن سر گیا آخر
بڑھا کر ہاتھ اُلفت کا سدا کی بے کلی دے دی
تمہاری چاہ کر...