زیست کی نیّا سبک خرامی اور سکون سے منزل کی جانب گامزن تھی زندگی یوں ہی تمام ہو جانی تھی اگر اس میں شادی نام کا تلاطم نہ برپا ہوتا. اس تلاطم.کے برپا ہوتے ہی سبک خرامی اور آہستہ روی خواب ہوئے اور کشتی بیچ منجدھار چکرانے لگی. آج تک ڈوبتے ابھرتے رہنے کا سفر جاری ہے. آج بھی ڈوب جانے کا دھڑکا جی کو...