نتائج تلاش

  1. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی جیل

    جیل آج کی رات ہر اک گھر کا یہی عالِم ہے آج کی رات ہر اک گھر میں صفِ ماتم ہے ماتمی ہات فقط سینہ زنی جانتے ہیں ماتمی ہاتوں سے زنجیر نہیں کٹ سکتی اور زنجیر کٹے بھی تو فَصیلِ زنداں ایسی مُحکم ہے کہ رستے سے نہیں ہٹ سکتی اور ہٹ جائے بھی بالفرض تو اس کے آگے اور زِنداں ہے جو اِس سے بھی بڑا...
  2. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی کاروبار

    کاروبار دماغ شَل ہے ، دل ایک اک آرزُو کا مدفن بنا ہؤا ہے اِک ایسا مندر جو کب سے چمگادڑوں کا مسکن بنا ہؤا ہے نشیب میں جیسے بارشوں کا کھڑا ہؤا بےکنار پانی بغیر مقصد کی بحث ، اخلاقیات کی بےاثر کہانی سحر سے بےزار ، رات سے بےنیاز ، لمحات سے گُریزاں نہ فِکرِ فردا ، نہ حال و ماضِی، نہ صُبحِ خنداں ، نہ...
  3. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی ہار جِیت

    ہار جِیت میری بن جانے پہ آمادہ ہے وُہ جانِ حیات جو کِسی اَور سے پیمانِ وفا رکھتی ہے میرے آغوش میں آنے کے لئے راضِی ہے جو کِسی اور کو سِینے میں چھپا رکھتی ہے شاعرِی ہی نہیں کُچھ باعثِ عزّت مُجھ کو اَور بہت کُچھ حَسَد و رشک کے اسباب میں ہے مجھ کو حاصِل ہے وُہ معیارِ شب و روز کہ جو اُس کے...
  4. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی آں دِلے کہ ما داریم

    آں دِلے کہ ما داریم صبا کے ساتھ ہمارا خرام بھی ہوگا کبھی تو عصرِ رواں تیز گام بھی ہوگا ہرا ہے زخمِ جگر ، لالہ فام بھی ہوگا تمھاری سال گرہ پر خواص آتے تھے سُنا ہے اب کی برس جشنِ عام بھی ہوگا ہماری نظم کی سارے جہاں میں شُہرت ہَے ہمارے ساتھ رہو گے تو نام بھی ہوگا تمھارے وقت کا ٹھرا ہُوا...
  5. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی آواز کے سائے

    آواز کے سائے خبر نہیں تم کہاں ہو یارو ہماری اُفتادِ روز و شب کی تمہیں خبر مِل سکی ، کہ تم بھی رہینِ دستِ خزاں ہو یارو دِنوں میں تفرِیق مِٹ چُکی ہے کہ وقت سے خُوش گُماں ہو یارو ابھی لڑکپن کے حوصلے ہیں کہ بے سروسائباں ہو یارو ہماری اُفتادِ روز و شب کی نہ جانے کتنی ہی بار اب تک دھنک...
  6. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی واقف نہیں اِس راز سے آشفتہ سراں بھی

    واقف نہیں اِس راز سے آشفتہ سراں بھی غم تیشہء فرہاد بھی غم سنگِ گراں بھی اُس شخص سے وابستہ خموشی بھی بیاں بھی جو نِشترِ فصّاد بھی ہے اَور رگِ جاں بھی کِس سے کہیں اُس حُسن کا افسانہ کہ جِس کو کہتے ہیں کہ ظالم ہے، تو رُکتی ہے زباں بھی ہاں یہ خمِ گردن ہے یا تابانیء افشاں پہلو میں مِرے قوس...
  7. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی شیریں زبانیوں کے دریچے اُجڑ گئے

    شیریں زبانیوں کے دریچے اُجڑ گئے وہ لُطفِ حرف و لذّتِ حسنِ بیاں کہاں پیچھے گُزر گئی ہے سِتاروں کی روشنی یارو ، بسا رہے ہو نئی بستیاں کہاں اے منزلِ ابد کے چراغو ، جواب دو آگے اب اور ہو گا مرا کارواں کہاں ہر شکل پر فرشتہ رُخی کا گمان تھا اُس عالمِ جنوں کی نظر بندیاں کہاں بن جائے گی...
  8. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی غزل : عشقَ بُتاں اس فکرِ معاش پر اپنا رنگ جماتا کیا

    غزل عشقَ بُتاں اس فکرِ معاش پر اپنا رنگ جماتا کیا ہم نے مانا کُنّبہ دِلّی میں رہتا پر کَھاتا کیا پہلی بار کے عشق میں ایسا دیوانہ پن ممکن ہے روز کی اس شوریدہ سری پر کوئی ہمیں سمجھاتا کیا دو دن کی یہ محفل ساقی رندوں سے ہنّس بول کے کاٹ ہم پھر اپنی راہ لگیں گے تیرا ہمارا ناتا کیا یوں تو...
  9. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی بازار

    بازار وُہی ذِمہ دارانِ نامُوسِ اُمّت ، وُہی حامیانِ حَرَم بِک چُکے ہیں جو لَوح و قلم کی حِفاظَت کو نِکلے تھے خُود اُن کے لَوح و قلم بِک چُکے ہیں خطِیبانِ بزمِ صَفا لُٹ گئے ہیں ، حرِیفانِ بَیتُ الصَّنم بِک چُکے ہیں کُچھ آدرش خندہ بہ لَب مر گئے ہیں ، کُچھ افکار با چشمِ نم بِک چُکے ہیں...
  10. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی جرمنی

    جرمنی میں نے کب جنگ کی وحشت کے قصیدے لکھے میں نے کب امن کے آہنگ سے انکار کیا میں نے تو اپنے سرِ دامنِ دل کو اب تک کبھی پُھولوں ، کبھی تاروں کا گنہگار کیا اے مری روحِ طرب میں نے ہر عَالم میں جب بھی تو آئی ترے پَیار کا اقرار کیا لیکن اس دیس کے آہنگِ گراں بار میں بھی وہی نغمہ ہے جو شب...
  11. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی آسماں زرد تھا

    آسماں زرد تھا اے کلی تجھ کو ہمارا بھی خیال آ ہی گیا ہم تو مایوس ہوئے بیٹھے تھے صحراؤں میں اب ترا روپ بھی دُھندلا سا چلا تھا دل میں تو بھی اک یاد سی تھی جُملہ حسیناؤں میں تہ بہ تہ گرد سے آلود تھا دن کا دامن رات کا نام نہ آتا تھا تمناؤں میں رقصِ شبنم کی پرستار نگاہوں کے لئے دُھوپ کے اَبر...
  12. غزل قاضی

    ساحر یہ عشق عشق ہے

    نہ تو کارواں کی تلاش ہے ، نہ ہم سفر کی تلاش ہے مرے شوقِ خانہ خراب کو تری رہ گزر کی تلاش ہے ( ب ) مرے نامراد جنوں کا ہے جو علاج کوئی تو موت ہے جو دوا کے نام پہ زہر دے اسی چارہ گر تلاش ہے ( ا ) ترا عشق ہے مری آرزو ، ترا عشق ہے میری آبرو ترا عشق کیسے میں چھوڑ دوں ، مری عمر بھر کی تلاش ہے دل عشق...
  13. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی حسن ِ ظن تو نہیں اگر یہ کہوں

    حسن ِ ظن تو نہیں اگر یہ کہوں میں بھی تھوڑا شعور رکھتا ہوں خصلتا" چُپ ہے تیرا جذباتی ورنہ کیا بات کر نہیں آتی میری نظموں کا ہے ہر اک انداز میرے پورے وجود کی آواز اک خلا کی صؔدا نہیں ہوں میں ہڈیاں بھی ہیں پھیپھڑے بھی ہیں دِل پُرخوں ہے میری اِک اِک رَگ شاعرانہ مبالغوں سے الگ میرے لہجے...
  14. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی صنم خانے

    صنم خانے سچ یہ ہے کہ وہ غم بھی رہا شاملِ امروز جس غم میں نہ تخلیق نہ تعمیر نہ پرواز جو گنبدِ آفاق کی ہمرَاز رہی تھی دیوار سے ٹکرا کے پلٹ آئی وہ آواز اب سنگِ سُبک مایہء زنداں بھی نہیں ہیں آئینہء زلف و لب و مژگاں تھے جو الفاظ جس طبع کے دامن میں تھے اٹھتے ہوئے خورشید وہ ڈوبتے مہتاب کی...
  15. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی اِنقلاب

    اِنقلاب یُوں ہَوا مُنتظِرِ ساعتِ نو ہے جیسے ایک اِک لمحے کی آواز شبستاں بن جائے ایک اِک لمحہ دبے پاؤں بڑھا آتا ہے کاش یہ سخت زمیں ابرِ خراماں بن جائے قُفلِ زنداں کی ابھی آنکھ لگی ہے شاید آنکھ کُھل جائے، تو ہر خواب بیاباں بن جائے ایک اِک سانس پہ ہے ساعتِ فردا کا مدار پُھول بن جائے کہ...
  16. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی فرار

    فرار اِس سے پہلے کہ خرابات کا دروازہ گرے رقص تھم جائے ، اداؤں کے خزانے لُٹ جائیں وقت کا درد ، نگاہوں کی تھکن ، ذہن کا بوجھ نغمہ و ساغر و اِلہام کا رُتبہ پا لے کونپلیں دُھوپ سے اک قطرہ ء شبنم مانگیں سنگساری کا سزاوار ہو بلّور کا جِسم دِل کے اُجڑے ہوئے مندر میں وفا کی مِشعل مصلحت...
  17. غزل قاضی

    تجھے خبر ہے تجھے یاد کیوں نہیں کرتے

    تجھے خبر ہے تجھے یاد کیوں نہیں کرتے خدا پہ ناز خدا زاد کیوںنہیں کرتے عجب کہ صبر کی معیاد بڑھتی جاتی ہے یہ کون لوگ ہیں فریاد کیوں نہیں کرتے رگوں میں خون کی مانند ہے سکوت کا زہر کوئی مکالمہ ایجاد کیوں نہیں کرتے مرے سخن سے خفا ہیں تو ایک روز مجھے کسی طلسم سے برباد کیوں نہیں کرتے یہ حادثہ...
  18. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی شہکار کی بات

    شہکار کی بات آج آئی ہے لب ِ سَاز پہ جھنکار کی بات اس میں پیکار کے قصّے ہیں نہ تلوار کی بات صرف اک گمشدہ فردوس کا افسانہ ہے صرف اک پاس سے گذرے ہوئے کردار کی بات تیری نظروں میں روایات کی سَلمائیں ہیں جیسے بچوں کی بتائی ہوئی بازار کی بات جیسے پربت کی بلندی سے زمیں کے مینار جیسے اک...
  19. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی ایک نوحہ

    ایک نوحہ ایک تاریک ستارہ ہے اُفق پر غلطاں اک الم ناک خموشی ہے پسِ پردہ ء ساز یہ اندھیرے میں کِسے شوقِ پزیرائی ہے یہ خلاؤں میں کِسے ڈھونڈھ رہی ہے آواز مرہمِ لُطف و وفا تجھ کو کہاں آئے زخم ہم سفر تجھ کو کہاں لے گئی تیری پرواز زندگی نغمہ و آہنگ تھی تیرے دم سے موت نے چھین لیا کیسے تِرے...
  20. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی تِری ہنسی

    تِری ہنسی فلک کا ایک تقاضا تھا ابنِ آدم سے سُلگ سُلگ کے رہے اَور پلک جھپک نہ سکے ترس رہا ہو فضا کا مہیب سنّاٹا سڈول پاؤں کی پائل مگر چھنک نہ سکے کلی کے اذنِ تبّسم کے ساتھ شرط یہ ہے کہ دیر تک کسی آغوش میں مہک نہ سکے میں سوچتا ہُوں کہ یہ تری بےحجاب ہنسی ! مِزاجِ زِیست سے اِس درجہ مُختلِف...
Top