اے مری خواہش فراموشی!
اے فراموش آرزوئے حیات!
آج پھیلا کے دامن ہستی
یہ تو کس در پہ آ کے بیٹھ گئ؟
وہ جو موجود تھے بروئے گماں
وہ جن کی خاک تھی ہوا کا خمیر
وہ جو بے بال و پر پھرے، تنہا
در بدر، ہشت نگر، راہ بقا
وہ جو ہونے کا بار سہ نہ سکے
وہ جو پل بھر رکے پہ رہ نہ سکے
وہ تو کب کے چلے گئے یاں سے
اے...