ہندوستان میں پھر بھی کسی حد تک اس پر کام ہورہا ہے، "پان سنگھ تومر" اور "ملکھا سنگھ" جیسے ایتھلیٹس کی زندگیوں کوفلما کر، ان کی سوانح عمریاں لکھ کر انہیں کسی قدر پذیرائی دی گئی ہے
اس ضمن میں صرف شعرا اور ادیب ہی نہیں، اولمپیئنز ایتھلیٹس اور بھی کئی لوگ ہیں جو اپنے شعبہ جات میں خدمات کے باوجود انکی خدمات کے صلے میں کسی سرکاری و غیر سرکاری ادارے سے کچھ حاصل نہ کر سکے
تراش خراش لازمی ہے اور اسکی سمت کا تعین بھی ضروری ہے کہ اسے نظم بنانا ہے، غزل، رباعی یا کچھ اور۔ ورنہ خیالات کے اظہار کے لیے نثر کے دروازے کھلے ہیں۔
الفاظ کو سیا باندھا نہ جائے تو ایسا ہی ہے جیسے فراک، قمیص، یا ٹی شرٹ کی بجائے کھلا کپڑا ہی پہن لیا جائے۔۔ :LOL:
آپکے سخنِ ظریف کے ردِعمل میں جو ہنسی کے فوارے پھوٹ پڑے، انہیں الفاظ کا پہناوا پہناتا تو شاید یہ سامنے آتا "ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔!!!!!"
اب بتایئے یہ کسی طرح بھی مہذب رویہ نظر آتا ہے؟ :LOL:
میرا ہرگز مقصد یہ نہیں۔ لئیق بھیا کو کسی اور وجہ سے ٹوک رہا تھا میں۔
خیر اس ملک میں ایسا اچنبھا تو شاید نہ ہو سکے ابھی۔اس مضمون کے پیشِ نظر کسی اہلِ دل کے ہاتھوں منور صاحب کے لیے مناسب روزگار کے بندوبست کی گنجائش پیدا ہو جائے شاید