مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس ہی بحر میں ایک غزل مئی 2011 میں کہہ چکا ہوں اور ذہن اُدھر گیا ہی نہیں:
اُس کو خیال بھی نہیں، مجھ کو ملال بھی نہیں
آنکھوں سے اشک ہیں رواں، لب پر سوال بھی نہیں
زخمو کو نظم کر کے میں، لایا ہوں بزم میں غزل
میری تمام کاوشیں، میرا کمال بھی نہیں
اوہ، ٹھیک، ہی تو ہے، یہاں مفاعلان استعمال کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے جی شیخ صاحب آپ کا بے حد ممنون ہوں، بہت مشکل غزل تھی یہ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن خیر مسئلہ حل ہو ہی گیا۔۔۔۔۔۔۔شیخ صاحب آپ کو زحمت ہوئی اس کے لیے شکریہ:LOL:
اوہ! یہ تو اور بھی مشکل کردی آپ نے۔۔۔۔۔۔اب تو میں پھنس گیا۔۔۔تو پھر اب مطلع کیسے تقطعی کریں گے؟
لح ظ ب لح = مف ت ع لن
ظ دی د نی = م فا ع لن
نا م ن شا = مف ت ع لن
ت ما م شد = م فا ع لن
کا رن گا = مف ت ع لن
ہ پی ش پی = م فا ع لن
ش کا ر ج ہا = ؟؟؟؟
ت مام شد = م فا ع لن
مصرعہ اولا تو ہو گیا...
اعجاز صاحب، بہت شکریہ۔۔۔ دراصل یہاں اصلاح کی ضرورت دلاور علی صاحب کو نہیں تھی بلکہ مجھ غریب کو تھی۔ اپنی کم علمی کے باعث میں اس غزل کے اوزان کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ میرے ناقص علم کے مطابق مطلع ہی وزن میں نہیں تھا۔
دل ہی ت ہے ن سن گو خش ت در د س بر ن اا ے کو
لح ظہ ب لح ظ دی د نی نا مو ن شا ت...
ایک دوست کی غزل حاضر ہے، آپ احباب کی رائے جاننا چاہتا ہوں کیا یہ غزل موضوع ہے؟ دوست کا کہنا ہے کہ یہ غزل غالب کی غزل "دل ہی تو ہے نہ سنگ و خِشت" کی زمین میں کہی ہے۔
لحظہ بہ لحظہ دیدنی نام و نشاں تمام شد
کارِ نگاہ پیش پیش کارِ جہاں تمام شد
قریہ بہ قریہ ، کو بہ کو ، صحرا بہ صحرا ، جُو بہ جُو...
اعجاز صاحب، تمام تر اصلاحات کے بعد ایک مرتبہ پھر سے پیش ہے، بس ایک مصرعہ"پیار، اُلفت۔۔۔۔" والا آپ کی توجہ کا طالب ہے۔
مجھ کو مشکل نہیں اک پل میں کنارہ کر لوں
اور چاہوں تو محبت میں گزارا کر لوں
پیار، الفت، ہو کہ عشق و فراق و وصال
سب بلائیں ہیں، بلاؤں کا اتارا کر لوں
مشقِ گریہ کی ریاضت کا...
"بارشوں کے موسم میں"
سردیوں کی بارش میں
بارشوں کے موسم میں
جب شجر نہاتے ہیں
پھول مسکراتے ہیں
مُرغ چہچہاتے ہیں
کھڑکیوں کے شیشوں پر
بوندیں جب تھرکتی ہیں
مل کے رقص کرتی ہیں
چائے کی پیالی سے
جب دھواں سا اُٹھتا ہے
اک خیال پھر دل میں
شکل سی بناتا ہے
کوئی یاد آتا ہے
جس کو یاد کر کے پھر
دل اُداس ہوتا...
بہت شکریہ اعجاز صاحب میں نے آسی صاحب کے مراسلہ کا بغور مطالع کیا ہے اور اُن کی تجاویز کے مطابق کچھ ترامیم بھی کی ہیں، اب کس حد تک کامیاب رہا ہے آپ بتا سکتے ہیں یا پھر خود آسی صاحب۔
آپ کا تجویز کردہ مطلع بھی بہت خوب ہے، مجھے پسند ہے اوراب یہ مشکل ہو گئی ہے کہ کس کو منتخب کیا جائے؟
لیکن اس حساب سے تو بہت سے مصرعے روانی سے محروم ہیں، نیز میری ناقص عقل کے مطابق، کچھ مصرعے مفہوم کُلی طور پر ادا نہیں کر پا رہے ہیں۔یعنی نا مکمل محسوس ہو رہے ہیں۔:unsure:
آسی صاحب آپ کی تجاویز کا دوبارہ مطالع کیا، اور جیسے کہ پہلے میں نے عرض کیا تھا کہ کچھ باتیں واضح ہیں اور کچھ وضاحت درکار ہے۔آپ نے مطلع کی بابت جو فرمایا کسی حد تک سمجھ پایا ہوں لیکن یہ لفظ "مَیں" کی نشست سے قطعا" واقف نہیں اس لیے رہنمائی فرمائیں
کیا ہے مشکل کہ مَیں اک پل میں کنارہ کرلوں
اور...
قبلہ آسی صاحب آپ کا کہا نہ صرف کلٌی طور پر گراں گزرا بلکہ افسوس بھی بہت ہوا۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے یہ تکلٌف پہلے کیوں نہیں فرمایا؟ :) بہت شکریہ آپ کی تجاویز نے دل میں جگہ پائی ہے، کچھ باتیں سمجھ گیا ہوں جن کی اصلاح کر کے دوبارہ پیش کروں گا، لیکن کچھ باتوں میں آپ نے ابہام رکھا ہے، یعنی نہ تو کلٌی طور پر...
خونِ دل، زخمِ جگر، اشک فشانی، ماتم
کر چکا ہوں جو کہو تم تو دوبارہ کر لوں؟
مجھے اس شعر پر شک تھا، لیکن کسی بھی دوست نے اور اعجاز صاحب آپ نے بھی اس پر گفتگو نہیں فرمائی، یہا لفظ "دوبارہ" کو قافیہ کیا گیا ہے اور یس کی "واو" گر رہی ہے، کیا اس کی اجازت ہے؟
مزمل شیخ بسمل صاحب، آپ کا کیا خیال ہے۔
جی اعجاز صاحب آپ کی بات درست ہے، پہلا مصرعہ وزن میں نہیں، تھوڑا سا شاعر بننے کی کوشش کی تھی کہ آخری رکن تبدیل کر کے بات پوری کی جائے۔ اگر آپ کوئی بہتر ی تجویز کر سکیں تو نوازش۔ نیز یہ کی پیار، عشق، محبت، اُلفت یہ سب ایک ہی معنی ہیں اس لیے چاہے نام مختلف ہیں لیکن میرے نزدیک اُن کی تعریف " بلاؤں "...
بہت شکریہ محترمہ سارہ بشارت گیلانی صاحبہ اس عزت افزائی کا بیحد ممنون ہوں۔ یوں تو عروض سے اس قدر واقفیت نہیں، لیکن میری ناقص رائے میں جناب نظامی صاحب کا مشورہ قریب ترین اور موزوں محسوس ہوتا ہے۔
بشکریہ جناب محمد وارث صاحب:
بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن...
مجھ کو مشکل نہیں اک پل میں کنارہ کر لوں
اور چاہوں تو محبت میں گزارا کر لوں
پیار، الفت، ہو کہ عشق و فراق و وصال
سب بلائیں ہیں، بلاؤں کا اتارا کر لوں
ایک ہی فن میں ہوں برسوں سے میں یکتہ لوگو!
جب بھی چاہوں تو میں اشکوں کو ستارہ کرلوں
خونِ دل، زخمِ جگر، اشک فشانی، ماتم
کر چکا ہوں جو کہو...