بھوک کم کم ہے پیاس کم کم ہے
اب تو جینے کی آس کم کم ہے
سانس لیتے تھے ہجر موسم میں
اب یہ موسم بھی راس کم کم ہے
تتلیاں اڑ گئیں یہ غم لے کر
اب کے پھولوں میں باس کم کم ہے
دل جو ملنے کی ضد نہیں کرتا
اب یہ رہتا اداس کم کم ہے
اپنی حالت اسے بتا نہ سکوں
وہ جو چہرہ شناس کم کم ہے
عمران شناور