اب میسر اک سہولت ہو گئی ہے
بھول جانا میری عادت ہو گئی ہے
بے حجابانہ نکل آیا ہے گھر سے
شہر میں برپا قیامت ہو گئی ہے
اب سرِ طورِ محبت کون جائے
اب محبت بھی تجارت ہو گئی ہے
آج پھر سے یاد وہ آنے لگا ہے
جس کو بچھڑے ایک مدت ہو گئی ہے...
کہیں خود میں پڑا سہما ہوا میں
کسی کے دل سے اب اترا ہوا میں
مرے غم پر زمانہ رو رہا تھا
مگر چپ چاپ تھا بیٹھا ہوا میں
چلی جب موسمِ ہجراں کی آندھی
بکھرتا ہی گیا ٹوٹا ہوا میں
غموں کی تیز ہوتی بارشوں میں
بتا جاوں کہاں بھیگا ہوا میں
دلاسے دے رہا تھا رات خود کو
مرے ہی سامنے بیٹھا ہوا میں
جلا...
خواہشوں کے سراب سے نکلے
زندگی اک عذاب سے نکلے
دل کی اب تیرگی مٹانے کو
کوئی صورت حجاب سے نکلے
رقص میں مے کدہ رہے شب بھر
ایسی مستی شراب سے نکلے
اب سرِ شام چاندنی غم کی
درد اوڑھے شباب سے نکلے
زندگی کا لباس اترا تو
یوں لگا جیسے خواب سے نکلے...
بہت نوازش
آپ نے جو بتایا بلکل بجا ہے مجھے بھی یہ چیز پریشان کر رہی تھی پر متبادل نہیں مل رہا تھا مشکل آسان کر دی آپ نے
استادِ محترم آپکا مشکور ہوں آپکی نظر سے گزر گئی میرے لیئے یہی کافی ہے
سلامتی ہو
اصل میں کافی دن بعد آیا ہوں اور دفتر والے کمپیوٹر پر اردو کی بورڈ بھی نہیں ہے عروض کی سائٹ کھول کر لکھ رہا تھا اور یہاں پیسٹ کر رہا تھا غلطی سے انٹر دب گیا اور ساتھ بجلی بھی بند ہو گئی
باقی اشعار بھی لکھ دیئے ہیں
دیکھ کر تیرے خواب آنکھوں کو
مل چکے ہیں عذاب آنکھوں کو
کر رہی ہیں سوال مدت سے
کب ملے گا جواب آنکھوں کو
ہر گھڑی دید کو ترستی ہیں
کر گئے ہو بے تاب آنکھوں کو
ہوش کھو جائے گا ہمارا بھی
اب سنبھالیں جناب آنکھوں کو
خوں رُلا کے قرار پائے گا
رندِ خانہ خراب آنکھوں کو
جب اپنی نمائش کرتی ہیں تب ان کو کچھ فرق نہیں پڑھتا معاشرہ تباہ کر دیا ان لوگوں نے ڈانس کر کے کہتی ہیں اللہ نے بہت عزت دی ہے
کمال کی بات تو یہ ہے حقوق نسواں اور مرداں کی بات سب کرتے پر پاکستان کا حق کب ادا ہو گا کیسی کو پرواہ نہیں یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا پر اب مکمل...