در دام، بہرِ دانہ نیفتم مگر قفس
چنداں کنی بلند کہ تا آشیاں رسد
"میں دانے کے لیے جال میں پھنسنے کا نہیں، ہاں سوائے اس حالت کے کہ تو قفس کو اتنا بلند کر دے کہ وہ میرے آشانے تک جا پہنچے"
(غالب)
تشنہ لب بر ساحلِ دریا زغیرت جاں دہم
گر بہ موج افتد، گمانِ چینِ پیشانی مرا
(غالب)
"اگر میں پیاسا سمندر پہ جاؤں اور اس کی لہروں کو دیکھ کر مجھے یہ گمان ہو کہ اس کے ماتھے پر شکن پڑی ہے تو میں پیاسا مر جانا گوارا کروں گا"
شب گزری اور آفتاب نکلا
تو گھر سے بھلا شتاب نکلا
اے آتشِ عشق جس کو ہم یاں
دل سمجھے تھے سو کباب نکلا
ایدھر جو مسکرا کے دیکھا
کچھ تو جی سے حجاب نکلا
ہر چند کیے ہزار نالے
پر دل سے نہ اضطراب گیا
میخانہ ء عشق میں تو اے درد
تجھ سا نہ کوئی خراب نکلا