اس دشت سے آگے بھی کوئی دشتِ گماں ہے
لیکن یہ یقیں کون دلائے گا کہاں ہے
یہ روح کسی اور علاقے کی مکیں ہے
یہ جسم کسی اور جزیرے کا مکاں ہے
کرتا ہے وہی کام جو کرنا نہیں ہوتا
جو بات میں کہتا ہوں یہ دل سنتا کہاں ہے
کشتی کے مسافر پہ یونہی طاری نہیں خوف
ٹھہرا ہوا پانی کسی خطرے کا نشاں ہے
جو کچھ بھی...