ایک اور غزل برائے اصلاح حاضرِ خدمت ہے۔
عبرتوں کا مقام آیا ہے
تاج پہنے غلام آیا ہے
اشک پینے سے جام پینے تک
صبر ہی صبر کام آیا ہے
ہول اٹھتا ہے دل میں قاتل کے
کون یہ زیرِ دام آیا ہے
دشمنِ جان ہو گئی بستی
زیرِ لب کس کا نام آیا ہے
نیند آنے لگی اندھیروں کو
روشنی کو دوام آیا ہے
شام سے لے کے...