السلام علیکم الف عین صاحب و دیگر صاحبان۔ کچھ مزید کوشش کے بعد ترمیم شدہ غزل ملاحظہ کیجیے؛
گریزاں روشنی سے ہو، عجب ہے
سحر ہو گی تو سمجھو گے کہ شب ہے
کھڑے ہو اور زمیں جھٹلا رہے ہو
یقیناً بد گمانی ہی سبب ہے
کیے جاتے ہو رد ہر ایک شے یوں ------یا -----|کیے جاتے رہو سب کو یونہی رد
کہ بس...
او ہو - اب یہ عقدہ کھلنا شروع ہوا ہے۔ آپ کہیں اس شعر کی بات تو نہیں کر رہے
نفی سے کرتی ہے اثبات طراوش گویا
دی ہی جائے دہن اس کو دمِ ایجاد نہیں
یعنی کہ میری کمزور سمجھ میں - نفی کا تلفظ یوں ہو گا کہ جیسے ی گرتا ہوا لگے؟
اللہ اکبر۔ آپ لوگوں کی باتیں جان کر تو دس منٹ ہم سر دھنتے رہتے ہیں۔
میرا تو...
محترم استاد صاحب۔ ایک بات رہ گئی۔ نفی میں ساکن ی کی وضاحت کر دیجئے۔ ہم نے نفی کو خفی ، جلی، کے وزن پر سنا ہے۔
شعر کا مدعا یہ ہے کہ "تم نے عقل کو ہر چیز کی نفی پر روک کر رکھ دیا ہے۔ جو کہ چلتے ہوئے دل (یا چلتی ہوئی زندگی )پر ایک غضب کی مانند ہے" اس پر بھی رہنمائی فرما دیجئے۔
حضرت بہت شکریہ، آپ تو سب کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
جی - مصرع میں ٹائپو تھا۔ مصرع یوں تھا
کھڑے ہو اور زمیں جھٹلا رہے ہو
یقیناً بد گمانی ہی سبب ہے
باقی اصلاح کی کوشش کے بعد دوبارہ حاضر ہوتا ہوں۔ شکریہ
تمام حضرات سے درخواست ہے کہ غلطیوں کی نشاندہی کر دیں جیسے کہ الف عین صاحب اور محمد خلیل الرحمٰن صاحب کرتے ہیں۔ متبادل دینے میں ذرا انتظار کر لیں۔ میری تمنا ہے غلطیوں کو خود ہی سدھار لوں۔ اگر کوشش میں عاجز ہو گیا تو لازماً آپ لوگوں کو تکلیف دوں گا۔
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہ سہی...
السلام علیکم - ایک تازہ غزل کے ساتھ آپ کو تکلیف دے رہا ہوں۔ برائے مہربانی ایک نگاہ ہو۔ (اس غزل کا محرک ذرا سا سیاسی ہے، مجھے معلوم نہیں کہ اجازت ہے کہ نہیں، اس لیے نہیں دیا)
الف عین محمد خلیل الرحمٰن سید عاطف علی محمد احسن سمیع راحل
گریزاں روشنی سے ہو، عجب ہے
سحر ہو گی تو سمجھو گے کہ شب ہے...
ارے باپ رے باپ- :bashful: آپ تو مجھے شاعر بنا کر ہی چھوڑیں گے۔ ابھی تخلص جتنا قد تو نہیں ہے۔
آپ کا مشورہ سر آنکھوں پر۔ آپ کی تمام اصلاح کا شکریہ۔ ان شااللہ جلد ہی نئی غزل کے ساتھ حاضر ہوں گا۔
محترم و مکرمی - آپ کا انتہائی انتہائی شکریہ - آپ کی رہنمائی میرے لئے اعزاز ہے۔ آپ کو ایک دفعہ اور تکلیف دینا چاہوں گا۔ مطلع میں "خود بخود" میرے مدعے کو بگاڑ رہا تھا۔ سو میں نے اس کو یوں کر دیا ہے۔ امید ہے قابل قبول ہو گا۔
ہے سفر درپیش کوئی، جو ہوا حاصل قدم
کچھ تو ہے جو رہ نوردی پر ہوا مائل قدم...
محترمی الف عین صاحب۔ اب ملاحظہ کیجیے- بتائے ہوئے اشعار تبدیل کردیے ہیں۔ شکریہ۔
ہے سفر درپیش کوئی، جو ہُوا حاصل قدم
رہ نوردی پر ہوا کیوں خود بخود مائل قدم
نا مکمّل ہی رہے یا پھر رہے کامل قدم
بس رہے کوشش یہ اپنی اب نہ ہو غافل قدم
تجھ کو ڈھونڈوں، خود کو پاؤں، دل کا ہے یہ مشورہ
دیکھنا ہے اب...
ماشااللہ سے آپ لوگوں کے نکات اتنے اچھے ہوتے ہیں اور اتنا سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ غزل کو صحیح کرنے کا لطف یوں ہو جاتا ہے کہ "جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزہ ہے اے پسر -- وہ مزہ شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں"
محترم استاد صاحب؛ کچھ تبدیلیوں کے ساتھ دوبارہ بھیج رہا ہوں۔ برائے مہربانی ایک دفعہ اور دیکھئے، کیا کسی قابل ہوئی؟ تبدیلیاں نیلے رنگ میں ہیں۔
ہے سفر درپیش کوئی، جو ہُوا حاصل قدم
رہ نوردی پر ہوا کیوں خود بخود مائل قدم
نا مکمّل ہی رہے یا پھر رہے کامل قدم
بس یہی کوشِش رہے اب نہ رہے غافل قدم
تجھ...
السلام علیکم استذہ اور صاحبان۔
پہلے ایک مثبت خبر۔ جنوری میں، میں ٹخنے کی سرجری سے گزرا تھا۔ چلنے سے منع کیا ہوا تھا۔ اللہ کے فضل سے دو روز قبل دونوں پاؤں سے چلنا شروع کیا ہے۔ آپ لوگوں سے دعا کی درخواست ہے۔ ذہن میں ایک خیال تھا کہ اللّہ نے کیوں چلنے کی قدرت دوبارہ عطا کی؟ اسی سوچ میں یہ غزل کہی۔...