غزل
اور بھی ہو گئے بیگانہ وہ، غفلت کرکے
آزمایا جو اُنھیں ، ضبطِ محبّت کرکے
دِل نے چھوڑا ہے، نہ چھوڑے تِرے مِلنے کا خیال
بارہا دیکھ لِیا ، ہم نے ملامت کرکے
دیکھنے آئے تھے وہ، اپنی محبّت کا اثر
کہنے کو یہ کہ، آئے ہیں عیادت کرنے
پستیِ حوصلۂ شوق کی اب ہے یہ صلاح
بیٹھ رہیے غَمِ ہجراں پہ قناعت...
غزل
سینہ خُوں سے بھرا ہُوا میرا
اُف یہ بدمست مے کدہ میرا
نا رسائی پہ ناز ہے جس کو
ہائے وہ شوقِ نارَسا میرا
عِشق کو مُنہ دِکھاؤں گا کیونکر
ہجر میں رنگ اُڑ گیا میرا
دلِ غم دِیدہ پر خُدا کی مار
سینہ آہوں سے چِھل گیا میرا
یاد کے تُند و تیز جھونکے سے
آج ہر داغ جَل اُٹھا میرا
یادِ ماضی عذاب...
غزل
یہ سِتَم اور ، کہ ہم پُھول کہیں خاروں کو
اِس سے تو آگ ہی لگ جائے سمن زاروں کو
ہے عبث فکرِ تلافی تجھے، اے جانِ وفا !
دُھن ہے اب اور ہی کُچھ ،تیرے طلبگاروں کو
تنِ تنہا ہی گُذاری ہیں اندھیری راتیں
ہم نے گبھراکے، پُکارا نہ کبھی تاروں کو
ناگہاں پُھوٹ پڑےروشنیوں کے جھرنے
ایک جھونکا ہی اُڑا...
الف عین صاحب !
جی جی، ہم عمر کے ایک ہی عشرے یا دہائی میں ہیں ، میری کوشش اور دعا یہی رہے گی کے علم و سخن میں بھی آپ کے قریب قریب رہوں
مبار کباد ، نیک خواہشات اور دُعا کےلیے تہہ دِ ل سے تشکّر
اللہ آپ کو خوش و خرم رکھے
ہر وقت آپ اور دِیگر احباب، رفقا ء اور شرکاء کے لئے دست بہ دعا ہُوں
طارق شاہ
اچھا پیش کرنے کی سب کوششیں بلکہ جسارتیں آپ سب کی اعلیٰ ذوق اور پزیرائی کے وجہ سے ہی ہیں
ہم سب ایک ہی لڑی میں پروئے ہُوئے موتی ہیں،اور بہ ایں نسبت آپ سب کی قربت میرے لئے باعثِ شادمانی اور نعمت ہے
آپ میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے بہت کم فیض یاب کیا ہو
آپ سب کی محبتوں اور...
غزل
تاثیر پسِ مرگ دِکھائی ہے وفا نے
جو مجھ پہ ہنسا کرتے تھے، روتے ہیں سرہانے
کیا کہہ دیا چُپ کے سے، نہ معلوُم قضا نے
کروَٹ بھی نہ بدلی تِرے بیمارِ جفا نے
ہستی مِری، کیا جاؤں مَیں اُس بُت کو منانے
وہ ضِد پہ جو آئے تو فَرِشتوں کی نہ مانے
اَوراقِ گُلِ تر، جو کبھی کھولے صبا نے
تحرِیر تھے...
غزل
چند افسانے سے لَوحِ دِل پہ کندہ کرگیا
مصلحت اندیش تھا، رُسوائیوں سے ڈر گیا
کتنی یخ بستہ فِضا ہے، کتنے پتّھر دِل ہیں لوگ
ایک اِک شُعلہ تمنّا کا ، ٹھٹھر کر مر گیا
ذہن میں میرے رَچا ہے اب نئے موسم کا زہر !
سوچ کے پردے سے، رنگوں کا ہر اِک منظر گیا
ایک مُدّت سے کھڑا ہُوں آنکھ کی دہلیز پر...
مِرے آگے ، وہ شب روزِ قیامت بن کر آئی ہے
گُزاری تھی جو ساحِل پر بدوشِ کہکشاں میں نے
لَدَا ہے سر پہ اندھیارا ، کہ کیوں ذرّات کے لب سے !
ہزاروں آفتابوں کی سُنی تھی داستاں مَیں نے
جوشؔ ملیح آبادی
ڈسا کرتی ہے فرش ِخواب پر اُن کی کھنک اکثر
کبھی توڑی تھیں فرطِ شوق میں جو چُوڑیاں مَیں نے
ٹپکتی ہیں دِلِ صد پارہ سے، اب خُون کی بوندیں
پِیے تھے ہائے کیوں رنگِیں لبوں سے بوستاں مَیں نے
جوشؔ ملیح آبادی