ہمارے ہاں شادی شدہ جوڑوں کی کاؤنسیلنگ کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ نہ ایسے ادارے ہیں نہ ہی ذاتی حیثیت میں لوگ یہ کام کرتے ہیں۔
بلکہ قریبی لوگ زیادہ تر معاملہ فہمی سے کام نہیں لیتے اور اپنی کم سمجھی کے باعث معاملات اور بگاڑ دیتے ہیں ۔
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اب بھی بنیادی ضروریات کے لئے ڈاکے ڈالنے والے بہت ہی کم ہیں۔ بمشکل پانچ فیصد ہی ہوں گے۔
باقی یہ کام وہی لوگ کرتے ہیں جو پہلے سے بگڑے ہوئے ہیں۔ کمانے سے جی چراتے ہیں اور مفت خوری اور عیاشیوں کے لیے چوری ڈاکہ کو اپناتے ہیں۔
اگر ملک میں قانون کا نفاذ اور عملداری ہو تو...
زیادہ خبریں مت دیکھا کریں۔ اور صبح میں تو بالکل بھی مت دیکھیں۔
میں خبریں بہت ہی کم دیکھتا ہوں۔ آج بھی بس اتفاقاً ٹی وی کے سامنے رک گیا تو بس ڈکیتی والا ٹکر دیکھنے کو ملا۔
ابھی عصر کی نماز کے بعد ایک ہمارے ایک ہم دفتر کا فون مسجد کے باہر سے چھین لیا گیا۔ اور ایسے نہ جانے کتنے واقعات آئے روز ہوتے رہتے ہیں۔ جن میں سے بیشتر کی باقاعدہ رپورٹنگ بھی نہیں کی جاتی۔ رپورٹ کر بھی دی جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
آج اتفاقاً ایک نیوز چینل کا ٹکر پڑھا تو پتہ چلا کہ:
کراچی میں آج ایک نجی کمپنی کے ملازمین کی بس کو لوٹ لیا گیا۔ یہ کل چھ ڈاکو تھے جو تین موٹر سائیکلوں پر سوار آئے تھے۔ بس میں ڈرائیور سمیت ستر (70) لوگ سوار تھے، جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ ڈاکوؤں نے 65 موبائل فون چھینے اور باقی سب قیمتی اشیاء...
پاکستانی ٹیم کے ساتھ شاید کچھ مسائل ہیں جبھی وہ بڑی بے دلی سے کھیلے ہیں۔ کہیں سے نہیں لگ رہا تھا کہ وہ انڈیا سے مقابلہ کرنا چاہ رہے ہیں۔
اگر ہدف تک نہ بھی پہنچ پاتے تو بھی کم از کم سوا دو سو ، ڈھائی سو تک تو پہنچتے۔
اس سے زیادہ غلط یہ تھا کہ نیپال جیسی نئی ٹیم کو پاکستان اور انڈیا کے ساتھ ایک ہی گروپ میں ڈال دیا گیا۔ اس لالچ میں کہ انڈیا پاکستان کا ایک میچ شروع میں ہی ہو جائے۔
گروپ متوازن ہوں یا نہ ہوں۔ کوئی مسئلہ نہیں۔ کرکٹ سے زیادہ کمرشل ازم اہم ہے۔