دو دن سے کچھ بنی تھی سو پھر شب بگڑ گئی
صحبت ہماری یار سے بے ڈھب بگڑ گئی
واشُد کُچھ آگے آہ سی ہوتی تھی دِل کے تئیں
اقلیمِ عاشقی کی ہوا، اب بگڑ گئی
گرمی نے دل کی ہجر میں اس کے جلا دیا
شاید کہ احتیاط سے یہ تب بگڑ گئی
خط نے نکل کے نقش دلوں کے اٹھا دیئے
صورت بتوں کی اچھی جو تھی سب بگڑ گئی
باہم...