جی سر یہ اختر شیرانی کے ہی ہم عصر ہیں امرتسر سے تعلق تھا پیدائش فیصل آباد پاکستان میں 1917 میں ہوئی اور وفات 1990 میں..آپ جن ہندی شاعر کا ذکر کر رہے ہیں برائے مہربانی ان کا بھی تعارف کروائیے..
اعتقادات کی ٹہنی سے جھڑا پتّا ہوں
انتشاروں کی غلاظت میں پڑا پتّا ہوں
کیا خبر چلنے لگے زور سے کس وقت آندھی
پھر بھی جینے کی عبث ہٹ پہ اڑا پتّا ہوں
—————
فطرت سے بشر بر سرِ پیکار رہا ہے!
فطرت کا چلن پھر بھی پُر اسرار رہا ہے
کیا کم ہے کہ اس پر بھی یہ نا چیز سا ذرّہ
ہر اژدرِ تخریب کو للکار رہا ہے...
غرق ہے سارا جہاں خواب کی بے ہوشی میں
اک تحیر سا ہے آئینۂ خاموشی میں
کون ہے کون جو ایسے میں بھی کچھ کہنے سے!
باز آتا نہیں ہر سانس کی سرگوشی میں
—————
جب آنکھ دیکھنے والی کہیں بھی تکتی ہے
تو فرطِ گل کی نمو سے زمیں چھلکتی ہے!
اگر تو چاہے تو تیرے لئے یہی دھرتی
تمام حسن ہوا میں اچھال سکتی ہے
—————...
شمع کیسی نہ فروزاں جو سرِ محفل ہو!
دل وہ کیا شورشِ دنیا میں نہ جو شامل ہو
معرفت کاوشِ ادراک ہے وجۂ غم کی
معرفت کیا جو غمِ زندگی سے غافل ہو
—————
جھیل پہ نور کی چادر سی بچھی جاتی ہے
پھول ہیں خندہ بلب مست فضا گاتی ہے
"اِک نئی زیست کے احساس سے روشن ہو جا"
دل کی گہرائی سے رہ رہ کے صدا آتی ہے...
تُو ہے گر سیلِ خرد، راہ سے ساحل کو ہٹا
رُوئے خُورشیدِ سحر سے مہِ کامل کو ہٹا
کوتہِ بینی تو دُھندلکا ہے کم آگاہی کا
چشمِ بینا ہے تو ہر پردۂ حائل کو ہٹا
—————
آج کی صبح نے یہ کیسی نظر ڈالی ہے
روشن اِک شمع سی انگ انگ میں کر ڈالی ہے
من کی جھولی جو کئی دن سے پڑی تھی خالی
رنگ و نکہت کے مدھر نور سے...
کونسا معرکہ محتاجِ تگ و تاز نہیں
کونسا عزم نئی جہد کا آغاز نہیں
ذوقِ تخلیق کے اعجاز بھرے ہاتھ میں آج
تیشہ فرہاد کا ہے، کُن کا حسیں ساز نہیں
—————
خودبخود کوئی عجب سانحہ کب ہوتا ہے
کچھ تو نازل شدہ ہونی کا سبب ہوتا ہے
اَن گنت راز گہہِ زیست کے در کھُلتے ہیں
دِل کو درپیش نیا مسئلہ جب ہوتا ہے...
ترساں خوف زدہ کے معنوں میں ہی آتا ہے اس کی تصدیق محمد وارث سر کے کیے گئے تراجم بھی کرتے ہیں :)
ان کی یہ لڑی ملاحظہ ہو..
انتخاب فارسی غزلیاتِ خسرو مع اردو تراجم
اس کا ترجمہ ہو گا کڑوی نیم کو بھی بتاشے لگتے ہیں اللہ محمد (ص) کے ہاں.. ویسے تو نیم پر نبولیاں ہی لگتی ہیں لیکن ان کے حضور میٹھا بھی لگ سکتا ہے گویا کوئی بھی امر نا ممکن نہیں ان کے لیے :)