اپنا ماضی سمیٹنے کے لیے
ایک اندھیرا مکان چاہتا ہوں
یہ مصرع کہہ رہا ہے ، "میں بھی تیرا دھیان چاہتا ہوں"
اتنا بےلوث خیر میں بھی نہیں
میں بھی تیرا دھیان چاہتا ہوں
واہ!
ہوئی محتاط سے انداز میں یوں گفتگو اپنی
سوال آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ
واہ
ایک شعر یاد آیا
سوال وصل پر ان کو عدو کا خوف ہے اتنا
دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ
خدائی کو ستاتے ہیں خدا کے یار بنتے ہیں
واہ
اسی حوالے سے یاد آیا
عبد الحمید عدم کہتے ہیں
اے خدا تیرے چاہنے والے
تنگ کرتے ہیں تیرے بندوں کو
باغ جنت کے سبز پیڑوں سے
باندھ اپنے نیاز مندوں کو
دسمبر جاتے جاتے یہ مِری فریاد سُن جانا
کہ اگلے سال جب آﺅ تو یوں تنہا نہیں آنا
میں جس کے ہجر میں ہر لحظہ ہر لمحہ تڑپتا ہوں
مِری اُس راحتِ جاں کو تم اپنے ساتھ لے آنا
آمین