اندر سےچیر پھاڑ رہا ہے نہ جانے کیوں؟
گندم کی بالیوں پہ ہے انسان کی حیات
سب کھیت خود اجاڑ رہا ہے نہ جانے کیوں؟
مفتوح آدمی ہے تو فاتح بھی آدمی
خود کو یہ خود پچھاڑ رہا ہے نہ جانے کیوں؟
پہلے ہوا کو ٹوہ کے ہاتھوں سے ہر بشر
پھر اس میں کیل گاڑ رہا ہے نہ جانے کیوں؟
لمحوں میں ڈھے گیا ہے جو برسوں سے تھا...