کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آگیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر!
میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُر غرور تھا
تھا وہ تو رشکِ حور بہشتی ہمیں میں میرؔ
سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا ۔۔۔
ہم خاک میں ملے تو ملے لیکن اے سپہر
اُس شوخ کو بھی راہ پہ لانا ضرور تھا
تھا...