امیدوں کے قافلے کو میرَ کارواں نہ ملا
جسم بے آب و گیاہ کو گلستاں نہ ملا
تیری طلب میں آئے تھے جہاں میں
کبھی تو یہاں نہ ملا کبھی وہاں نہ ملا
جب سے نکلے تیرے کوچہ بہار سے
پھرآج تلک کوئی بھی آستاں نہ ملا
میری راہوں میں نظروں کے پھول بچھاتا
شہرِ غم میں کوئی بھی انساں نہ ملا
بے اعتنائی کا زہر رگ...