غزل
(اجے پانڈے سحاب)
جب بھی ملتے ہیں تو جینے کی دعا دیتے ہیں
جانے کس بات کی وہ ہم کو سزا دیتے ہیں
حادثے جان تو لیتے ہیں مگر سچ یہ ہے
حادثے ہی ہمیں جینا بھی سکھا دیتے ہیں
رات آئی تو تڑپتے ہیں چراغوں کے لئے
صبح ہوتے ہی جنہیں لوگ بجھا دیتے ہیں
ہوش میں ہو کے بھی ساقی کا بھرم رکھنے کو
لڑکھڑانے کی...
غزل
(سبودھ لال ساقی)
زباں کو اپنی گنہ گار کرنے والا ہوں
خموش رہ کے ہی اظہار کرنے والا ہوں
میں کرنے والا ہوں ہر خیرخواہ کو مایوس
ابھی میں جرم کا اقرار کرنے والا ہوں
چھپانی چاہئے جو بات مجھ کو دنیا سے
اسی کا آج میں اظہار کرنے والا ہوں
وہ جس کے بعد مجھے کچھ نہیں ڈرائے گا
وہ انکشاف سرِ دار کرنے...
غزل
(سبھاش پاٹھک ضیا)
سلسلہ ختم کر چلے آئے
وہ اُدھر ہم اِدھر چلے آئے
میں نے تو آئینہ دکھایا تھا
آپ کیوں روٹھ کر چلے آئے
دل نے پھر عشق کی تمنا کی
راہ پھر پُر خطر چلے آئے
دور تک کچھ نظر نہیں آتا
کیا بتائیں کدھر چلے آئے
میں جھکا تھا اُسے اُٹھانے کو
سب مجھے روند کر چلے آئے
اے ضیا دل ہے بھر نہ...
غزل
(سبھاش پاٹھک ضیا)
تو آگ رکھنا کہ آب رکھنا
ہے شرط اتنی حساب رکھنا
زبان کا کچھ خیال رکھ کر
بیان کو کامیاب رکھنا
قریب آؤ کہ چاہتا ہوں
ہتھیلی پر ماہتاب رکھنا
اگر تمازت کو سہ سکو تم
تو حسرتِ آفتاب رکھنا
جو کہنی ہو بات خار جیسی
تو لہجہ اپنا گلاب رکھنا
ضیا کسی سے سوال پوچھو
تو ذہن میں تم جواب...
غزل
(سبطِ علی صبا - 1935-1980)
زرد چہروں سے نکلتی روشنی اچھی نہیں
شہر کی گلیوں میں اب آوارگی اچھی نہیں
زندہ رہنا ہے تو ہر بہروپئے کے ساتھ چل
مکر کی تیرہ فضا میں سادگی اچھی نہیں
کس نے اذن قتل دے کر سادگی سے کہہ دیا
آدمی کی آدمی سے دشمنی اچھی نہیں
جب مرے بچے مرے وارث ہیں ان کے جسم میں
سوچتا ہوں...
غزل
(سبطِ علی صبا - 1935-1980)
گاؤں گاؤں خاموشی سرد سب الاؤ ہیں
رہرو رہ ہستی کتنے اب پڑاؤ ہیں
رات کی عدالت میں جانے فیصلہ کیا ہو
پھول پھول چہروں پہ ناخنوں کے گھاؤ ہیں
اپنے لاڈلوں سے بھی جھوٹ بولتے رہنا
زندگی کی راہوں میں ہر قدم پہ داؤ ہیں
روشنی کے سوداگر ہر گلی میں آپہنچے
زندگی کی کرنوں کے...
غزل
(امیتا پرسو رام میتا)
ہزاروں منزلیں پھر بھی مری منزل ہے تو ہی تو
محبت کے سفر کا آخری حاصل ہے تو ہی تو
بلا سے کتنے ہی طوفاں اُٹھے بحرِ محبت میں
ہر اک دھڑکن یہ کہتی ہے مرا ساحل ہے تو ہی تو
مجھے معلوم ہے انجام کیا ہوگا محبت کا
مسیحا تو ہی تو ہے اور مرا قاتل ہے تو ہی تو
کیا افشا محبت کو مری...
غزل
(مادھو رام جوہر - 1810-1888 )
فریاد کرے کس سے گنہ گار تمہارا
اللہ بھی حاکم بھی طرف دار تمہارا
کعبہ کی تو کیا اصل ہے اس کوچے سے آگے
جنت ہو تو جائے نہ گنہ گار تمہارا
دردِ دل عاشق کی دوا کون کرے گا
سنتے ہیں مسیحا بھی ہے بیمار تمہارا
جوہر تمہیں نفرت ہے بہت بادہ کشی سے
برسات میں دیکھیں گے ہم...
غزل
(راسخ عظیم آبادی - 1757-1823 پٹنہ بہار ہندوستان)
غفلت میں کٹی عمر نہ ہشیار ہوئے ہم
سوتے ہی رہے آہ نہ بیدار ہوئے ہم
یہ بےخبری دیکھ کہ جب ہم سفر اپنے
کوسوں گئے تب آہ خبردار ہوئے ہم
صیاد ہی سے پوچھو کہ ہم کو نہیں معلوم
کیا جانئے کس طرح گرفتار ہوئے ہم
تھی چشم کہ تو رحم کرے گا کبھو سو ہائے
غصہ...
غزل
(احمد مشتاق)
اب وہ گلیاں وہ مکاں یاد نہیں
کون رہتا تھا کہاں یاد نہیں
جلوہء حسن ازل تھے وہ دیار
جن کے اب نام و نشاں یاد نہیں
کوئی اجلا سا بھلا سے گھر تھا
کس کو دیکھا تھا وہاں یاد نہیں
یاد ہے زینہء پیچاں اس کا
در و دیوار مکاں یاد نہیں
یاد ہے زمزمہء ساز بہار
شور آواز خزاں یاد نہیں
غزل
(بسمل سعیدی - 1901-1977 دہلی ہندوستان)
اب عشق رہا نہ وہ جنوں ہے
طوفان کے بعد کا سکوں ہے
احساس کو ضد ہے دردِ دل سے
کم ہو تو یہ جانیے فزوں ہے
راس آئی ہے عشق کو زبونی
جس حال میں دیکھیے زبوں ہے
باقی نہ جگر رہا نہ اب دل
اشکوں میں ہنوز رنگِ خوں ہے
اظہار ہے دردِ دل کا بسمل
الہام نہ شاعری فسوں ہے