فرہنگِ آصفیہ میں ہے۔ اور اس کی ایک اور وجہ تسمیہ بھی لکھی گئی ہے اسی فرہنگ میں کہ حضرت موسیٰ ّ اللہ سے کنایۃ اور اشارۃ بات کیا کرتے تھے اور اللہ کے سوا کوئی سمجھ نہیں سکتا تھا۔ اس لیے ایسے خط کے متعلق کہا جاتا ہے جس کو وہی سمجھ سکے جسے القا ہو۔ املا اِسی معنی کے موافق ہے۔