ادھر وہ زندہ مٹی، کھیت،لوگ،گلیاں،دستاریں اور عمریں ڈھونڈی جا رہی ہیں...........اول اول جن سے نکل بھاگنے میں کشش بڑی تھی.......اور آخر آخرانہی کا ورد ہوتا ہے زباں پہ........جانے کیا کشش ہوتی ہے ان میں
شناور اسحاق کا شعر ہے کہ
اول اول گھڑیاں آٹھوں پہروں کے گن گاتی ہیں
آخر آخر کیوں خواب سرائیں...