شاید اُسے ملے گی لبِ بام چاندنی
اُتری ہے شہر میں جو سرِ شام چاندنی
مجھ سے اُلجھ پڑے نہ کڑی دوپہر کہیں؟
میں نے رکھا غزل میں ترا نام "چاندنی"
میں مثلِ نقشِ پا، مرا آغاز دُھول دُھول
تُو چاند کی طرح، ترا انجام۔۔۔ چاندنی
جن وادیوں کے لوگ لُٹے، گھر اُجڑ چُکے
اُن وادیوں میں کیا ہے ترا کام چاندنی؟
اُن...