غزل
(بہزاد لکھنوی)
کرم چاہتا ہوں، عطا چاہتا ہوں
دلِ عشق کا مدعا چاہتا ہوں
ستم کرنے والے جفا کرنے والے
وفا کررہا ہوں، وفا چاہتا ہوں
وہی درد تیرا جو ہے جانِ ہستی
اسی درد کی اب دوا چاہتا ہوں
محبت کی دُنیا کو سارے جہاں سے
الگ چاہتا ہوں، جدا چاہتا ہوں
تجھے جو بھی دینا ہو دے دے خدارا
مجھے کیا خبر...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
تجھ پر مری محبت قربان ہو نہ جائے
یہ کفر بڑھتے بڑھتے ایمان ہو نہ جائے
اللہ ری بےنقابی اس جانِ مدّعا کی
میری نگاہِ حسرت حیران ہو نہ جائے
میری طرف نہ دیکھو، اپنی نظر کو روکو
دُنیائے عاشقی میں ہیجان ہو نہ جائے
پلکوں پہ رُک گیا ہے آکر جو ایک آنسو
یہ قطرہ بڑھتے بڑھتے طوفان ہو نہ...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
خود سے خیال میں جو وہ جانِ خیال آگیا
قلب کو وجد آگیا، روح کو حال آگیا
کچھ ملے یا نہ کچھ ملے، یہ تو نصیب کی ہے بات
دستِ گدا نواز تک دستِ سوال آگیا
ہائے نہ مٹ سکیں کبھی قلب کی بیقراریاں
جب بھی کوئی نظر پڑا تیرا خیال آگیا
تیرے کرم کی خیر ہو، تیری عطا کی خیر ہو
تجھ سے سوال جب...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
آنکھوں میں اشکِ غم جو مرے پا رہے ہو تم
اللہ جانتا ہے کہ یاد آرہے ہو تم
کہنے بھی دو سکوں سے مجھے داستانِ غم
یہ کیا کہ بات بات پہ شرما رہے ہو تم
ہاں ہاں وفا کرو گے یہ مجھ کو یقین ہے
بےکار میرے سر کی قسم کھا رہے ہو تم
یا خود ہی بڑھ گئی ہے یہ تابانیء جہاں
یا گوشہء نقاب کو سرکا...